کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 35
آج 'داعیان' کے اندر ہر مسلمان داخل ہوچکا ہے خواہ وہ علمی طور پر بالکل کنگال ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے آپ کو داعیانِ اسلام میں شمار کرنے لگتا ہے۔
اگر ہم اس معروف اصول کویاد رکھیں جو صرف علماے کرام ہی نہیں بلکہ ہر عقل مند جانتا ہے :"فاقد الشيء لا یعطیه" (جو کسی چیز کا خود حامل نہیں وہ دوسروں کو نہیں دے سکتا )۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں پر مشتمل ایک بہت بڑا گروہ ہے، جب دعا ۃ (داعیوں ) کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہےتواُن کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں۔ میری اس سے مراد 'تبلیغی جماعت' ہے، باوجود اس کے کہ 'اکثر لوگوں' پر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
﴿ وَلـكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿187﴾[1]
''اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔''
اُن کے طریقۂ دعوت کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ جن اُمور کا میں نے ابھی ذکر کیا یعنی عقیدہ ، عبادت اور سلوک ،اُن میں سے پہلی یا اہم ترین بات کے اہتمام سے وہ مکمل طور پر اِعراض برتتے ہیں ۔ اس اصلاح سے جس سے نہ صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکہ تمام انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے آغاز فرمایا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا:
﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّـغوتَ...36﴾[2]
''ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول بھیجا جس نے یہی دعوت دی کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔''
پس یہ لوگ اس بنیادی دعوت اور ارکانِ اسلام كے اس رکنِ اوّل کی قطعاً پروا نہیں کرتے جیسا کہ اہل علم مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ توحید ہی وہ بنیادی اساس ہے جس کی دعوت تمام رسولوں میں سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام تقریباً ہزار سال دیتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی شریعتوں میں ان احکام ِ عبادات ومعاملات کی تفصیل موجود نہ تھی جو ہمارے دین میں معروف ہیں، کیونکہ یہ دین تمام سابقہ شریعتوں اور ادیان کو ختم کرنے والا ہے، اس کے باوجودحضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں پچاس کم ہزار سا ل رہے اور اپنا تمام تروقت
[1] سورة الاعراف:187
[2] سورة النحل:36