کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 34
جب اُن میں ہمارے نبی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔کیونکہ ہمارے پاس تو رسالت موجود ہے، اور اس کی تکمیل بھی ، اور ایسا گروہ بھی جو حق پر قائم ہے ، جن کے ذریعے ہدایت ملتی ہے، اور یہ طائفہ منصورہ لوگوں کو عقیدہ وعبادت اورسلوک و منہج کے اعتبار سے صحیح اسلام کی طرف بلاتے ہیں ۔ بلاشبہ مسلمانوں کے بہت سے گروہوں کی جو حالت ہے، وہ دورِ جاہلیت کے عرب کی مانند ہے۔اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اُن کا علاج بھی وہی علاج ہے، اور ان کی دوا بھی وہی دواہے۔ چنانچہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جاہلیتِ اوّل کا علاج کیا تھا،اسی طرح تمام موجود ہ داعیانِ اسلام کو کلمۂ توحید لا إله إلا اللّٰه (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودنہیں) کے سوےفہم کا علاج کرنا ہوگا، اور اُنہیں چاہئے کہ اپنی اس الم نا ک حالت کا اسی دوا سے علاج کریں۔اس کا معنیٰ بالکل واضح ہے، اگر ہم اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور تدبر کریں: ﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿21﴾[1] ''یقیناتمہارے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ اورقیامت کے دن پر یقین رکھتا اوربکثرت اﷲکو یاد کرتا ہے۔'' سومسلمانوں کی موجود ہ صورتحال کی اصلاح اور ہر زمانے کے لئے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہترین نمونہ ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسی چیز سے ابتدا کریں جس سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا کی تھی یعنی سب سے پہلے مسلمانوں کے فاسد عقائد کی اصلاح کرنا، پھر اِس کے بعد اُن کی عبادتوں کی ، اور پھر اُن کے رویوں میں پائے جانی والی خرابیوں کی۔ میری اس ترتیب سے کہ سب سے پہلے اہم ترین چیز سے شروع کرنا چاہئے پھر اس کے بعد جو اہم ہو، پھر جو اس کے بعد، سے مراد یہ نہیں کہ میں ان میں تفریق کرنا چاہتا ہوں ۔ بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ مسلمان اِس کا خصوصی اہتمام کریں۔ یہاں مسلمانوں سے میری مراد بلاشبہ داعیانِ اسلام ہیں۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہوگا کہ میں کہوں کہ مسلمانوں کے علما ، کیونکہ صد افسوس
[1] سورة الاحزاب:21