کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 33
کے ذریعہ اُمّت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ الم ناک حالت یقیناً مخلص مسلمانوں کے اندر ایمانی غیرت وحمیّت کو اُبھارتی ہے اور اس کو بدل دینے اور اس خلل کی اصلاح کرنے کی جانب اُنہیں متوجہ کرتی ہے، مگر جیسا کہ فضیلۃ الشیخ آپ جانتے ہیں کہ اپنے میلاناتِ عقیدۂ ومنہج میں اختلاف کی وجہ سے وہ اس اصلاح کے لئے بروے کار لائے جانے والے طریقۂ کار میں اختلاف کا شکار ہیں۔ پھر ان مختلف تحریکوں اور اسلامی گروہی جماعتوں کو بھی آپ جانتے ہیں جو برسوں، دہائیوں سے اُمّت کی اصلاح کا ڈنڈھورا پیٹ تو رہی ہیں، مگر اس کے پیروی کرکے اُن کے لئے آج تک کوئی نجات یا فلاح رقم نہیں ہوسکی، بلکہ اس کے برعکس ان تحریکوں کی وجہ سے فتنے اُبھرے، آفتوں کا نزول ہوا اور عظیم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے عقیدہ ومنہج میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔اس بات نے مسلمانوں خصوصاً نوجوانانِ اُمت میں اس صور تحال کے علاج کی کیفیت کے بارے میں ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ سب حیران وپریشان ہیں۔ اندریں حالات ایک مسلمان داعی جو منہجِ نبوت کی پابندی اور سبیل المومنین کی اتباع کرتا ہے، فہم صحابہ رضی اللہ عنہم اور جنہوں نے بطریقۂ احسن اُن کی پیروی کی، اُن کی بجا آوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں شریک ہونے کا عزم کرکے اُس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی پیروکاروں کے لئے؟ اور اس صورتحال کے علاج کے کون سے نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟ اور ایک مسلمان کس طرح بروزِ قیامت اﷲ تعالیٰ کے سامنے بریٔ الذمہ ہوگا؟ جواب ازمحدثِ زماں علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ انبیاء و رسل علیہم السلام کے منہج کے مطابق سب سے پہلے توحیدِ ربانی کی خصوصیت سے دعوت دینا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔مسلمانوں کی جوز بوں حالی ابھی سوال میں بیان ہوئی، ہم اس پر مزید بیان کریں گے، وہ یہ کہ یہ الم ناک صورتحال اس سے بدتر نہیں جو صورتحال جاہلیت میں عرب کی ہوا کرتی تھی کہ