کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 31
لگنے کی ضرورت ہے اور ملتِ اسلامیہ میں ہرسو ہونے والی یہ تجدید آخر کچھ مراکز پر مجتمع ہوکر ملتِ اسلامیہ کو احیا اور آزادی کی نعمت سے مالا مال کرکے رہی گی۔اللہ کے ہاں قوموں کی تاریخ سالوں کی بجائے عشروں پر محیط ہوتی ہے۔ اور مستقبل کے عشرے ملتِ اسلامیہ کے عشرے ہیں بشرطیکہ اسلامیت کا شعور، خالص اسلام کا احیااور اس کے لئے قربانی وجدوجہد کا یہ سلسلہ جاری ہے تو مغرب کے یہ استعماری بندھن ایک ایک کرکے ٹوٹتے جائیں گے، مسلمانوں کے ہر طبقے میں بے چینی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور وہ اس غلامی کے بندھن توڑنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ جب یہ مسلم دنیا اپنے اصل حقائق پر متشکل ہوگی تو 1950ء کے بعد سے آزاد ہونے والے مسلم ملک حقیقی آزادی کی منزل حاصل کرلیں گے۔ اس کے لئے مسلمانوں کو اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف جیسے استعماری اداروں کے متبادل اپنے اداروں، باہمی تعلقات، تجارت او رروابط وتعلقات کو مضبوط وپختہ کرنا ہوگا۔ معلومات کی تیز رفتار ترقی ، آخر کار اُمت مسلمہ کو بھی متحد کرکے رہے گی۔ اسلام کے خادموں کو اپنی حقیقی قوت کا شعور کرنا ہوگا، جو اسلامی نظریے اور ملی اُخوت میں پنہاں ہے۔ مصر میں جاری کشمکش پس قدمی کی بجائے ، پیش قدمی کی طرف جائے گی۔ اسلام کی نظریاتی قوت کا سامنا اہل مغرب نے اپنے دورِ عروج میں کبھی نہیں کیا، اُنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو منتشر کرکے اور مفادات کا لالچ دے کر اپنے اہداف پورے کئے ہیں۔ لیکن اب یہ استعماری اہداف روز بروز مزیددرمزید تکلف وتصنع سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ملت کو اپنے تعلیم وتربیت کے عمل اور باہمی رابطے زبان وتجارت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ جس دن چار اہم اسلامی ملک اپنے مفادات کے لئے یکسو ہوگئے ، وہ دن مغرب کے زوال کا نقطہ آغاز ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ ملت کو اسلام سے قریب تر اور دیگر ادیان پرغالب کرنے کے اس عمل اور دینی فریضہ میں کون مسلمان کہاں کھڑا نظرآتا ہے۔ اس کے دامن میں عمل اور حرکت کتنی ہے؟ دین کے لئے کام کرنے والے اداروں، تحریکوں ، تنظیموں اور شخصیات کو ان وسیع تر حقائق کو پیش نظر رکھ کر اپنی حکمتِ عملی اسلام کے وسیع ترین مفاد میں تشکیل دینا چاہئے۔ السعی منّا والاتمام من اللّٰه ڈاکٹر حافظ حسن مدنی