کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 29
جات کی حقیقی صورتحال کا بھی علم نہیں کہ اُن کے اصل مسائل کیا ہیں۔ ہم اپنے پڑوس میں افغانستان میں جاری امریکی جارحیت کے حقائق سے آگاہ نہیں۔ مجاہدین کے میڈیا کو دیکھیں تو وہ ہر سُو اپنی کامیابیوں کی نوید سناتے ہیں ، دوسری سمت عالمی میڈیا ایک اور منظر کشی کرتا ہے۔ مصر میں تحریکِ بغاوت کے دوران مغرب اور اس کا پٹھو پاکستان کا مین سٹریم میڈیا بار بار ان مناظر کو فوکس کرتا رہا جو صدر مرسی کی مخالفت میں جمع تھے، لیکن عرب کے ایک دو براہِ راست ٹی وی ذرائع پر پتہ چلا کہ عین اسی وقت قاہرہ اور کئی شہروں میں اس سے کہیں درجے بڑےاجتما عات مرسی کی حمایت میں اکٹھے تھے۔ مغربی میڈیا ہمیں لہو ولعب کے بے تحاشا تفصیلات دکھاتا اور اس میں اُلجھائے رکھتا ہے اور ہمیں اپنے گھر کی خبریں اپنے مخالفین کی زبانی سننے کی اذیّت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے 'جمہوریت نواز'میڈیا کی اخلاقی حالت تو یہ ہے کہ وہ غاصب حکومت کے خلاف اخوان کے پرامن مظاہروں میں شہید ہونے والے مسلمانوں کو شہید لکھنے سے ابھی تک انکاری ہے اور ان کے لئے قتل کا لفظ استعمال کرتا ہے۔کیا اس کے لئے ہمارے میڈیا کو بڑے لمبے چوڑے ہدایت نامے یا لیکچر کی ضرورت ہے یا صرف غیرتِ ایمانی اور اخوت اسلامی کا جذبہ ہی کافی ہے۔ یہ دور انفرمیشن کا دور ہے اور ہر ملک کے اخبارات ورسائل ، دنیا کے ہر شخص کی دسترس میں ہیں، اس کے باوجود آج بھی ہم برادر مسلم ممالک کی خبروں کے لئے غیروں کے محتاج ہوں تو یہ احتیاج قابل رحم ہے۔ان حالات میں مسلمانوں کی اپنی نیوز ایجنسی ملت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ہمارے کڑوڑوں کمانے والے ابلاغی ادارے کیا اس صلاحیت سے محروم ہیں کہ ان ممالک میں براہِ راست اپنے نمائندے مقرر کرکے، ملتِ اسلامیہ کے مختلف گھروں میں ہونے والے المیوں سے ہمیں براہِ راست باخبر کریں۔یہ مسئلہ دراصل شعورو انتظام کانہیں بلکہ میڈیا کے رجحان کا ہے کہ وہ انہیں عالمی ایجنسیوں سے شائع کی جانے والی خبروں پر اچھی ریٹنگ کی رشوت اور اُن کی تھپکی ملتی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے آئندہ سال بڑی شورشوں اور تبدیلیوں کے سال ہیں، عرب سپرنگ کا سلسلہ ابھی نتائج پیدا کرے گا، جہادی معرکےکسی نہ کسی انجام کو پہنچیں گے، ان حالات میں اگر کوئی دینی تحریک وتنظیم ان حالات کو براہِ راست میسر کرنے کی ذمہ داری بھی پوری کرے تو یہ عظیم ملی خدمت ہوگی، اسی کے نتیجے میں ملتِ اسلامیہ ایک جسد واحد کے شرعی تصور کی طرف