کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 28
نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ وہ مشترکہ ہدف ہے جس پر مغربی قوتیں بھی متفق ہیں کہ وہ اپنے ہاں بھی اسلام کی بڑھتی قوت سے خائف ہیں۔ ان حالات میں ہم مسلمانوں نے اسلام پر عمل میں تو کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی لیکن اسلام سے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے کام خوب لیا ہے، نتیجتاً اسلام پر بھی بہت لے دے ہوئی ہے اور میڈیا نے بھی اسلام کے خلاف بہت حصہ ڈالا ہے، اب میڈیا بھی صرف اسی اسلام کو پروان چڑھاتا ہے جو شارٹ کٹ اسلام یعنی ورد وظائف، استخارہ ودعا پر مبنی ہے۔ پاکستان میں عدلیہ وفوج کے خلاف مزاحمت ہو، حکومت و ریاست کے خلاف بیان بازی کی جائے تو اس کے دفاع میں مستحکم ادارے موجود ہیں جو اپنا آئینی تشخص حاصل کرکے رہتے ہیں لیکن اسلام ہی ایسا مظلوم ہے جو صرف اپنے نظریے کی قوت پر اپنا دفاع کرتا ہے ۔ اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ہمیشہ سے مسلمان اسلام کی حفاظت کے تقاضوں سے روگرانی کرتے رہے اور اسلام نے ہی ہر مشکل موقع پر مسلمانوں کی حفاظت کی ہے لیکن اس سے معاشرے میں اسلامی رجحانات پر کڑی ضربیں لگتی ہیں۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں بھی اسلامی جماعتوں کی کامیابی نہ ہونے اور اسلام کو بطورِ سیاسی نعرہ اختیار نہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ اسلامی تشخص، 10 سالہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں سب سے زیادہ نشانہ بنا ہے۔ مصر میں بھی مستقبل قریب میں اخوان المسلمون اور النور پارٹی کے خلاف حکومتی ظلم وستم میں نظریۂ اسلام کو ہی نشانہ بنایا جائے گا، اور اس صورتِ حال کو سمجھنا اور اس کا دفاع کرنا، اس کے لئے مناسب حکمتِ عملی تیار کرنا امّت مسلمہ ، دینی قیادت اور مخلص حکمرانوں کا اہم فریضہ ہے۔ میڈیا مغرب کا آلہ کار دنیا بھر میں اپنے مقاصد کو پانے اور رائے عامہ کو ہم وار کرنے کے لئے ماس میڈیا اس وقت مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مسلم اُمّہ کے درجنوں ممالک گذشتہ دو عشروں سے مصائب ومشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یمن، شام، لیبیا، تیونس،سوڈان، نائیجریا، عراق، ترکی، بنگلہ دیش، افغانستان، مصر،پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستیں یہ تمام ممالک سنگین ترین حالات میں تشکیل نو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں ان کے حالات اور تجربات سے لمحہ بہ لمحہ آگاہی ہونا چاہئے لیکن ان ممالک سے قطع نظر ہمیں تو اپنے ملک کے شمال میں وزیر ستان اور قبائلی علاقہ