کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 26
کی۔پہلے اکسانا اور ہلہ شیری، بغاوت وقوع پذیر ہوجانے پر ، قوم کو بانٹنے اور انتشار کی حوصلہ افزائی ، آخر کار سیاسی اور عسکری میدانوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے مسلم قوم کو تباہ کرنے اور اپنے معاشی وسیاسی مقاصد پورے کرنے کی منصوبہ بندی... یہ ہے امریکہ اور اس کی حواری ریاستوں کی سازش کا سیدھا سادا نقشہ...! شکار ہے بھولی ملتِ اسلامیہ اور اس کے لالچی عناصر... مُسلم افواج ؛ ملّتِ اسلامیہ کے خلاف جنرل سیسی کے ان اقدامات سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ملتِ اسلامیہ کے ان منتشر حالات اور کفر کی عالمی برادری کی مضبوط حکمتِ عملی کے تناظر میں ہر مسلم ملک کی مضبوط فوج ہی اس ملک کے لئے المیہ بنتی جارہی ہے۔پاکستان میں تین عشروں سے زیادہ فوج ہضم کر گئی،عراق میں کرنل صدام حسین، مصر میں جنر ل حسنی مبارک اور اب جنر ل سیسی، لیبیا میں کرنل معمر قذافی وغیرہ نے ملّتِ اسلامیہ کو فوجی شب خون کے تحفے دیے اور آمریت کو پروان چڑھایا۔ بنگلہ دیش کی الم ناک صورتحال بھی فوجی مہم جوئیوں کا تحفہ ہے۔ ملت کے ان حالات میں فوج دراصل بیرونی مداخلت کی بجائے گھر کے اندر سے ، حفاظت کی بجائے قبضہ وغلبہ کا رویہ اختیار کرلیتی ہے اور ملک کے مقتدر اداروں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وقتِ موجود کے حکمران کی ہاں میں ہاں ملا کر ، اپنی ملازمتیں یا سٹیٹس کو کو بچائیں۔ پھر ایک طرف یہ فوجی حکمران عالمی طاقتوں کی تائید حاصل کرنے اور رکھنے کےلئے اُن کے مفادات کے رکھوالے بن کر، اُن کے اس وقت تک کے لئے منظورِ نظربن جاتے ہیں جب تک اُن کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہیں اور دوسری طرف ملک میں خوشامد اور چاپلوسی کا طوفان گرم ہوتا ہے، معاشرہ میں میرٹ اور محنت کا قتل ہوکر وہ صورتِ حال بنتی ہے جس کو آج اہل پاکستان جھیل رہے ہیں:قوم منتشر اور ادارے تباہ ، ذرائع وسائل کا ضیاع ۔ان حالات میں وہ مسلم ممالک جو مضبوط فوج کا رسک نہیں لیتے کہ گھر پر محافظ ہی قبضہ نہ کرلیں، مثلاً سعودی عرب وامارات وغیرہ ...تو وہ بیرونی حکومتوں کے مرہونِ منت بن جاتے ہیں اور ان کا تحفظ عالمی قوتوں کی خوشامدسےمشروط ہوجاتا ہے، جو اپنی من مانی کرتی ہیں۔ ملّتِ اسلامیہ کے داخلی مراکزِ قوت کے انتشار کا یہ مسئلہ دراصل انتظام واستحکام کا معاملہ ہے جس کے خلاف مضبوط منصوبہ بندی اور چیک اینڈ بیلنس کا داخلی اور بین الملی نظام بنانا ہوگا۔ جب تک کچھ مسلم ممالک پوری طرح استحکام حاصل نہیں