کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 24
کہ یہ وہ مثالیں ہیں جن میں پورے معاشرے میں اسی اُسلوب کو اختیار کیا گیا، اور جہاں معاشرے کے محض چند طبقات اس رویے پر عمل پیرا ہوئے تو وہ آخر کار اس کا نتیجہ تشدد کی صورت نکلا۔ اس شدت پسندی کی واقعاتی صورت حال یہ ہے کہ مصر میں ساٹھ کی دہائی میں ہونے والے ظلم وستم کے نتیجے میں اخوان المسلمین سے أصحاب الهجرة والتفکیر نکلے، انور السادات کو قتل کرنے والی الجماعة الإسلاميةنکلی، حزب التحریر نے مسلم حکمرانوں کے خلاف مراکزِ كفر میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کی، سعودیہ و افغانستان اور پاکستان میں امریکی بے جا مداخلت کے نتیجے میں القاعدہ منظّم ہوئی، ماضی کے مصری اخوانی ایمن الظواہری وغیرہ اور افغانی مجاہدین نے اس میں پناہ لی، افغانیوں کو تہ تیغ کرنے کی کوششوں پہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بپھر گئے، لال مسجد میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو شمالی علاقہ جات کے یہ مظلوم مزید متحرک ہوگئے۔ لیبیا اور شام میں حکمرانوں نے ظلم وستم کیا تو عراق وافغان کے مجاہدین نے ان خطوں کا بھی رخ کرلیا۔ مسلم حکمرانوں کے خلاف متحد ہونے والوں کو1990ء کے امريكی نیو ورلڈ آرڈر نے نئے اہداف کے لئے متحرک کردیا۔ اب یہ فوری غلبہ، مزاحمت، جہاد اور انتقام کے ملے جلے عناصر رکھنے والا ایک وسیع تر گروہ بھی مسلم اُمّہ کے ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض حادثاتی شب خون، بعض مسلح جدوجہد، بعض کفار سے جہاد اور بعض انتقام کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ جسطرح مسلمانوں میں فکری مرعوبیت اور بے عملی کے شکار طبقے کو عالمی قوتیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں ترغیب وتحریص کے ذریعے کامیاب ہوجاتی ہیں، اسی طرح ان ناراض عناصر کو بھی اسلام مخالف قوتیں مغالطوں، خوش نما نعروں اور درپردہ مالی سپورٹ کے نام پر بری طرح استعمال کرتی ہیں اور ملت میں خون کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ جب جمہوریت کے راستے بند کرکے، بظاہر پرامن سیاسی عمل کا راستہ بند کردیا جاتا تو یہ بھی ناراض عناصر کو باور کرانے کے لئے ایک بہت بڑی ترغیب ہے، اس امر کی کہ اب پرتشدد حکمتِ عملی اختیار کئے بنا کوئی چارہ نہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے جمہوریت کے ذریعے غلبہ اسلام کا راستہ اپنانے والوں کو مصر کی مثال سے سبق سیکھ کر اپنی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ پاکستان کے بعض دانش ور مصر میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دیے جانے اور ان پر ہونے والے حکومتی ظلم وستم میں اسی امر پر چیخ رہے ہیں کہ عالمی قوتوں کی اس