کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 23
مخالفت مول لینے کی غلطی نہ کرتے، ہر صورت اس کو اپنی صفوں میں شامل رکھتے اور دوسری طرف ملحد طبقات کے لئے بھی مزید قابل قبول بنتےتو آج مصر اس قدر جلد خانہ جنگی کے حالات سے دو چار نہ ہوتا۔ قیادت کو ان درپیش حالات کا پورا اِدراک ہونا چاہئے۔ مصر میں اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں 72 فیصد کامیابی کے بعد، مصرکی سیاسی قیادت کو یہ جاننا چاہئے تھا کہ اتنی بڑی اکثریت حقائق کی ترجمانی کی بجائے، مخصوص آمرانہ حالات کے ردّ عمل کا شاخسانہ ہے اور مصری قومی ادارے بھی اپنی قوت کے ساتھ بہر طور موجود ہیں۔ آغاز میں اخوان کی یہ حکمتِ عملی کہ وہ اپنا صدر نہ لائیں گے، اسی امر کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں اس کا پوری طرح احساس تھا کہ اس طرح کے حالات میں قیادت پر کتنی بھاری بھرکم ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے، جس کا اکیلے سامنا کرنے کی بجائے اُنہیں اس بوجھ میں دوسرے مخلص لوگوں کو بھی شریک کرنا چاہئے تھا۔ اہل پاکستان کو یاد ہوگا کہ نواز شریف نے بھی مئی2013ء میں منعقدہ قومی انتخابات کے موقع پر اسی دور اندیشی کا اظہار کیا تھا کہ وزیر اعظم بننے سے قبل وہ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحد کے حوالے سے حکومتی کار پردازان کے رجحانات کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ اگر پالیسی میں کسی اساسی تبدیلی آنے کا امکان ہوا تبھی وہ وزارتِ عظمی کی بھاری ذمہ داری قبول کریں گے۔ بعد ازاں خیبر پی کے اور بلوچستان میں اسی حکمتِ عملی کے تحت اُنہوں نے دوسری جماعتوں کو بھی حکومتی اختیارات بلکہ ذمہ داری میں شریک کیا۔ شدت پسند ی ایک زہر قاتل روایتی فقہی رجحانات اور احیائی تحریکوں کے درمیان کچھ عرصہ سے ایک اور رجحان بھی ملتِ اسلامیہ میں نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ اور اس میں آنے والے نوجوانوں کا زیادہ حصہ بے جا مداخلت، ردّ عمل اور ظلم وستم کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ نوجوان مسلمان دو صدیوں کی الحادی سازشوں کا سامنا کرنے کی بجائے بڑی جلدی اور شارٹ کٹ طریقے سے معاشرے پر اسلام کو انقلاب یا جہاد کے ذریعے غالب کرنا چاہتے ہیں۔انقلاب اور جہاد سے حاصل ہونے والی سیاسی حکومت کے حوالے سے ایران میں انقلاب، افغانستان میں جہاد اور سعودی عرب میں دعوت اور جہاد کی صورت نسبتاً کامیاب اسلامی حکومتوں کی مثالیں موجو دہیں۔ اور یہ بھی یاد رہنا چاہئے