کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 22
نہیں جبکہ اسلام اس دنیا کو آخرت کے لئے کھیتی کا درجہ دیتا ہے، تاہم اسلام میں بھی فلاحِ معاشرہ، مطمئن وپرسکون طرزِ حیات اور دنیوی ترقی وامن وامان کا اپنا تصورموجود ہے۔ سیاسی میدان میں اس غیرمعمولی مفاہمت کا یہ تقاضا بھی ہوگا کہ جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے کے باوجود، اس کی کھلم کھلا مخالفت سے اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ دنیا کا سکہ رائج الوقت یہی ہے اور ابھی عام مسلمان تو کجا بڑے پڑھے لکھے مسلمان بھی اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں اور علماے کرام بھی اس کی شان میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ اندریں حالات کرنے کااصل کام یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں موجود روایتی تحریکیں اعتقادات و عبادات پر لوگوں کو مزید مستحکم کرکے، فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر آخر کار اہل اسلام کو معاشرتی تقاضوں کی طرف بھی متوجہ کریں۔ ان کا اسلام مسجد ومدرسہ یا پرائیویٹ زندگی تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے۔اگر وہ معاشرے کے اندر رہتے ہوئےایک اور معاشرہ تشکیل دے جائیں تو یہ بہت بہتر کامیابی ہے، پھر جوں جوں اس ذیلی معاشرے کے لوگ بڑھتے جائیں گے، توں توں اللہ کی نعمت سے انہیں وسیع تر خلافتِ ارضی حاصل ہوتی جائے گی۔یہی کام ترتیب کے لحاظ سے بھی پہلا ہے اور اس کا نتیجہ بھی محفوظ ہے، تاہم اس کو توسیع دی جانا چاہئے۔ دنیا بھر میں سلفی تحریک اسی کی تلقین کرتی ہے، جیسا کہ اسی شمارے میں موجود سلفی قائد علامہ ناصر الدین البانی کا مضمون اس سلسلے میں واضح رہنمائی کرتا ہے، جبکہ سیاسی اسلام کے حالات ابھی بہت کچھ صبر واحتیاط کے متقاضی ہیں۔ موجودہ حالات میں صدر مُرسی کی کوتاہی مصر میں اسلامی اقدامات کی طرف تیز تر پیش قدمی نے آخر کار مرسی حکومت کے لئے برسراقتدار رہنا ناممکن بنا دیا۔ حالات کا درست اِدراک کرنے، مغرب زدہ طبقے کی قوت اور چلت پھرت کا صحیح اندازہ کرنے میں اُنہیں غلطی ہوئی۔ صدر مرسی جو گرفتاری سے چند گھنٹے قبل مفاہمت کی کال دے رہے تھے، اُس سے پہلے اپنی کمزور حیثیت کا ادراک نہ کرسکے۔ اس کے بجائے اگر وہ آہستہ روی کو اختیار کرتے ہوئے، اپنے اقتدار کو پانچ سال تک وسیع کرتے تو اس طرح وہ اپنی حکومت کو طول دے سکتے تھے۔30 سال سے فرعونی آمریت میں لتھڑا معاشرہ اس سے زیادہ تحمل کا متقاضی تھا جتنی اُنہوں نے دکھائی۔ اسی طرح سلفی پارٹی'النور'سے