کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 20
لبرل افکار پر کڑی تنقید کرچکے ہیں کہ وہ اسلام سے زیادہ مغربی افکارسے متاثر ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اس سے زیادہ اسلام کو کچھ حاصل نہیں ہوا کہ مغرب کا پیش کردہ ریاستی ارتقا کا ماڈل اسلام پسندوں کی قیادت میں زیرعمل ہے، یعنی ملکی انفراسٹرکچر کی بہتری، فی کس آمدنی میں اضافہ،نظم وضبط اور صنعت ومعیشت کی بہتری وغیرہ، یہ وہی اہداف ہیں جو ایک مغربی ریاست حاصل کرتی ہے، جبکہ اسلامی ریاست تو قرآن کی زبانی ''اگر ہم زمین میں حکومت عطا کریں تو وہ اقامتِ صلوۃ اور ایتاے زکوٰۃ کریں گے، برائی سے ممانعت اور خیر کی ترویج کریں گے۔''کے مطابق پورے معاشرے کو اللہ کا بندہ بناتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اس سرزمین کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ دنیا جہاں کے خزانےکھول دیتا ہے۔ تاہم اسلامی حکومت کافائدہ یہ ہے کہ ترکی میڈیا میں اسلام پسندوں کی جمہوری کامیابی کے بعد آہستہ روی سے اسلامی اقدار سے نفرت کو کم کیا جارہا ہے، لیکن اُس کی حالت بھی یہ ہے کہ ترکی ڈراموں میں بے انتہا فحاشی پائی جاتی ہے، پاکستان میں متعارف ترکی ڈراموں نے انڈین فلموں کو بھی مات کردیاہے اور طیب اردگان کی حکومت نے یہ سب گوارا کررکھا ہے۔ ترکی معاشرہ کوقریب سے دیکھا جائے تو وہ کسی طرح اسلام کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں۔ ترکی کے'تقسیم سکوائر' کا حالیہ مخمصہ بظاہر ایک پارک کی تعمیر کا ہے،درحقیقت ایک عظیم مسجد کی مجوزہ تعمیرسے اسلامی ثقافت کی نمائندگی، اور شراب کے خلاف حالیہ ترک قانون سازی نے یہ اُلجھن کھڑی کی ہے، جبکہ شراب کے خلاف یہ قانون سازی مغربی ریاست برطانیہ میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ترکی کا بین الاقوامی کردار یہ ہے کہ طیب اُردگان کی حکومت نے 12 سالہ حکومت اور تین بار جمہوری انتخاب جیتنے کے باوجود اسرائیل کے بارے میں تو کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی تاہم شام میں جاری مسلم خانہ جنگی میں اپنا حصّہ ضرور ڈالا ہے۔یہ کیا کارنامے ہیں جس پر جمہوریت پسند، اسلامی جماعتیں ترکی میں اسلامی حکومت کا کریڈٹ لینا چاہتی ہیں۔ملائیشیا میں بھی صنعتی و مادی ترقی توہوئی ہے لیکن وہاں اسلام کس قدر پروان چڑھا ہے، اس کا اندازہ آپ کو ملائشیا کی پاکستان میں تعلیمی نمائشوں Expo میں پائے جانے والے کلچر اور سیکولر تعلیم کے ذریعے بخوبی ہوسکتا ہے۔ تیسرا گروپ پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں جمہوریت کا تجربہ سالہا سال سے جاری ہے اور جمہوریت کے ثمرات کو جاننے سمجھنے میں ہم دیگر عرب دنیا سے