کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 19
معیار پر کاربند نہیں رہ سکیں۔ ان حالات میں تعلیم وتربیت سے بے بہرہ سیکولر مسلمانوں کا طبقہ میڈیا کے ذریعے روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ مصر کے حالات میں بھی دیکھا جائے تو یہی طبقہ اہل کفر کے مقاصد کا آلہ کار بنتا ہے، لیکن اس آلہ کاری سے قبل، ان کے ہاں عملی و نظریاتی انحراف اور مادیت زدہ طرزِ حیات کا زہرسرایت کئے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے ان رجحانات کو جاننے کے بعد جمہوریت کے ذریعے غلبہ اسلام کی کوششوں کے بھی تین گروپ کئے جاسکتے ہیں: پہلا گروپ الجزائر، فلسطین اور مصر کا ہے۔ جہاں انتخابات میں غیر معمولی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اسلامی جماعتوں کی حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور اُنہیں چلنے نہیں دیا گیا۔ان ممالک میں اسلامی جماعتوں کو غیرمعمولی کامیابی تو ضرور ملی لیکن جمہور ی نظام پر کاربند نظامِ حکومت میں دیگر حکومتی ومعاشرتی عناصر مثلاً عدلیہ، فوج، میڈیا اور تعلیمیہ میں موجود جمہوری لبرل اقدار نے اُن کے راستے میں مزاحمت کرتے ہوئے ، تیزی سے اسلام کی سمت اُن کی پیش قدمی ناممکن بنا دی۔ اس طبقے نے اسلام کی اوپر سے تنفیذکو قبول کرنے کی بجائے،اس مغرب کی طرف دیکھنا شروع کیا، جس طرز ِحیات کے وہ عادی ہوچکے ہیں،نتیجتاً وہ غیروں کے لئے استعمال ہوگئے۔جمہوریت کے داعی بظاہر پارلیمنٹ کی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ پارلیمنٹ صرف قائدانہ کردار ادا کرتی ہے، اس منزل کی طرف جس کو جمہوریت کے دیگر عناصرنے پہلے سے متعین کیا ہوتا ہے۔اگر یہ پارلیمنٹ دوسری سمت چل پڑے تو جمہوریت کی روح اور دیگر سیاسی جمہوری ادارے یعنی عدلیہ، فوج، میڈیا، تعلیمیہ اور ثقافتی ومعاشرتی ادارے غیروں کی مدد سے اُسی کی بساط لپیٹ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے غلبہ اسلام کی کوششوں کا دوسرا گروپ ترکی، تیونس اور ملائیشیا وغیرہ ہیں۔موجودہ حالات میں ترکی اور تیونس میں اسلامی جماعتوں کی حکمتِ عملی یہ ہےکہ برسر اقتدار آنے والوں نے وسیع تر مفاہمت اور نظریاتی میدان میں غیر معمولی حد تک 'روا داری' اور تحمل وبرداشت کا اظہار کیا ۔ اُنہیں ملک کے داخلی اور عالمی نام نہاد برادری کے رجحانات کا بخوبی اندازہ ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سالہا سال حکومت کے بعد بھی کچھ نہیں کرسکے۔ترکی ابھی تک انتہائی آہستہ روی سے اسلام کی طرف پیش قدمی کررہا ہے اور تیونس کے النهضة پارٹی کے صدر راشد الغنوشی تو اس حد تک اسلامی تحریک کے نمائندہ ہیں کہ ماضی قریب میں اقوامِ متحدہ نے اُنہیں انسانی حقوق ایوارڈ دیا اور عرب دُنیا کے بہت سے سکالر اُن کے