کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 18
پاکستان کا نام لیا جاسکتا ہے جہاں اسلام کے نام پر لوگ اسلامی جماعتوں کو اَب ووٹ ہی نہیں دیتے اور اگر کوئی اسلامی قدم اُٹھایا بھی جائے تو اس کے خلاف اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر متفق بھی ہوجاتے ہیں۔ اور دوسرے کی مثال کے طور پر جہاں عالمی ادارے جمہوری بنیادوں پر کامیاب ہونے والی اسلامی حکومتوں کا چلنا دوبھر کردیتے ہیں، فلسطین، الجزائر اور مصر کا نام لیا جاسکتا ہے۔ یہاں بھی عالمی لابی کے ایجنٹ دراصل مسلمانوں میں وہ منتشر الخیال اور بے دینی کے رسیا، نام کے مسلمان ہوتے ہیں جو عشروں سے چلے والے استعمار کی مدد سے قوت کے مراکز پر بھی قابض ہوچکے ہیں۔مغرب کا طریقہ واردات ہمیشہ سے سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے، پیچھے سے سیکولر مسلمانوں کی تائید سے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا رہا ہے۔ مسلم اُمہ کا اصل المیہ اس وقت یہی وہ نام نہاد مسلمان ہیں جو دو صدیوں کے استعماری تغلب وتسلط اور مغربی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں اسی طرزِ فکر وعمل کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کا یہ عملی، فکری اور نظریاتی بحران ہردو صورتوں میں اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اسلام کو آج بھی اصل خطرہ غیروں کی بجائے اسلام کا نام لینے والے ان مسلمان بھائیوں سے ہے جو نہیں جانتے کہ اسلام یہودیت وعیسائیت کی طرح محض خاندانی یا موروثی مذہب نہیں ہے۔مصر کا حالیہ المیہ لبرل ، سیکولر اور دین دار مسلمانوں کے باہمی اختلاف کا ہی شاخسانہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اسلام کا نام لینے والے ہر فرد کی ذہنی تشکیل اور فکری شخصیت کی طرف بھی توجہ دی جائے اور بظاہر کوئی تنظیم اس کی طرف متوجہ نہیں۔ سلفی تحریکات یا روایتی مسالک مثلاً بریلوی، دیوبندی وغیرہ عبادات اور مسائل کی تحقیق وترجیح کے نام پر مسائل وعبادات تک محدود ہیں۔ دورِ استعمار میں وہ اس طور پر سیکولر ہوچکے ہیں کہ وہ مذہب کو صرف مسجد ومدرسہ تک محدود رکھتے ہیں اور مسلم معاشرہ کے مسائل اور اُن کی رہنمائی سے غافل ہیں، جب کہ واضح ہے کہ ماضی میں فقہی رجحانات نہ تو فرقہ واریت کے زہر کا شکار تھے او رنہ ہی معاشرے کے زندہ مسائل سے لاتعلق۔ دوسری طرف ماضی کی جماعتِ اسلامی، اخوان المسلمون اور حزب التحریر وغیرہ جیسی تحریکیں کافی عرصہ سے تعلیم وتربیت اوراجتماعی تقاضوں کی تشکیل کو نظرانداز کر کے حصولِ حکومت کی سیاسی جدوجہد میں اپنا آپ کھپا چکی ہیں، اُنہیں اپنے اصل کام کی یکسوئی سے فرصت ہی میسّر نہیں ہے۔نیز اصلاحِ عقائد اور اسلام پر بہترعمل پیرا ہونے کے حوالے سے وہ اچھے