کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 17
کہ سیاسی غلبہ کے طور پر اسلام کے فی الفور نفاذ کو حاصل کرلینے کی بجائے، لوگوں کو اندر سے بدلنے اور سب سے پہلے اُنہیں اپنی ذات پر اسلام کو نافذ کرنے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ اگر کوئی فرد اپنے اوپر، اپنے خاندان اور کنبہ برادری پر اسلام نافذ کرنا چاہے تو اس میں آج بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس کے لئے اس امر کا تقاضا کہ کوئی باہر سے آکر جب تک اُنہیں پابند کرکے اسلامی معاشرت پر مجبور نہیں کرے گا، وہ اسلامی اجتماعیت کے تقاضوں پر عمل پیرا نہیں ہوں گے، عذرِ لنگ کے سوا کچھ نہیں۔آج مسلمان اگر خلوص دل سے چاہیں توازخود غیرسودی معیشت، سیکولر تعلیم، فحاشی پر چلنے والے ذرائع ابلاغ سے بچ سکتے اور بڑی حد تک سیکولر قانون کی بجائے شریعت سے اپنےاختلافات حل کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ذہنی آمادگی اور عزمِ صمیم کی ہی کمی ہے کہ وہ اسے بھی اسلام کا تقاضا سمجھیں۔ جبکہ مسلمان معاشروں کی حقیقی صورتحال اور دین سے تعلق کو مساجد میں نماز ادا کرنے والوں، سودی اور بینکی لین دین سے بچنے اور پوری زکوٰۃ دینے والوں، دینی تعلیم بالخصوص قرآن کا ترجمہ جاننے والوں، اورفلم ومیوزک ، فحاشی وعریانی سے اجتناب کرنے والوں کی تعداد سے بخوبی جانچا جاسکتا ہے۔ خواتین میں شرعی حجاب کا اہتمام کرنے والیاں اور مردوں میں داڑھی کی شرعی پابندی سے مسلم معاشروں کےشخصی رجحانات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ ان تمام میزانوں اور شرعی تقاضوں میں امت اسلامیہ کی صورتحال شرم ناک حد تک خراب ہے۔ جب مسلمان خود سے دین پر عمل پیرا نہیں، تو کیا وہ حکومتی جبر کا انتظار بلکہ اسے دعوت دیں گے، کہ وہ انہیں تمام تر اجتماعی تقاضوں میں دین اسلام کے مطابق چلائے۔ مسلم معاشروں میں احیاے اسلام کی مؤثر جدوجہد اور دعوت و تعلیم کے موضوعات کو فرد کی تربیت سے بڑھا کر معاشرت کے اسلامی تقاضوں تک بھی وسیع کرنا ہوگا اور رضا کارانہ طور پر لوگوں کو اس اسلامی معاشرے کی طرف پیش قدمی پر آمادہ کیا جائے۔ اسلام صرف مسجد کا ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کا دین ہے۔یہ عبادات کا ہی کوئی خاص ڈھانچہ نہیں بلکہ کامل نظامِ حیات بھی ہے۔ اگر مسلمانوں کی بامقصد تیاری کے بغیر کسی حادثاتی یا وقتی وجہ سے ان پر خاص حالات میں دینی تحریکیں غلبہ حاصل بھی کرلیں تو بعض صورتوں میں یہ بے عمل مسلمان خود اس اسلام کو ترک دیتے ہیں اور بعض صورتوں میں عالمی الحادی تہذیب کے کل پرزے منظّم حکمتِ عملی کے ذریعے اسلام کی اس برکت سے اُنہیں محروم کردیتے ہیں۔ پہلی صورت کی مثال کے طور پر