کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 16
آج مصر کے احتجاج کرنے والے اس قرآنی آیت کو اپنا شعار بنا رہے ہیں: ﴿وَسَيَعلَمُ الَّذينَ ظَلَموا أَىَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبونَ ﴿227﴾... سورة الشعراء ''عنقريب ظلم كرنے والے اپنے انجام کو جان جائیں گےکہ کہاں اُنہیں لوٹنا ہے۔'' مصر میں جبر وتشدد کے اس آغاز پر اُنہیں متوجہ رہناچاہئے کہ مخالفین کو اس حد تک نہ پہنچا دیں جہاں سے واپسی کا راستہ مسدودہو اور اس کا نتیجہ بھاری قومی اور ملی نقصان کی شکل میں ملے۔ بالخصوص اس وقت جبکہ بزورِ قوت لپیٹی جانے والی حکومت واضح قانونی اور جمہوری جواز رکھتی ہے اور اس کے ساتھ عوام کی کھلی اکثریت بھی ہے۔ ایسی صورت حال میں عوامی اور جمہوری قوت کے ساتھ ساتھ اسلام کی نظریاتی تائید بھی اُنہیں میسر ہوجائے تو پھر دنیا کا بدترین ظلم بھی اُن کا راستہ نہیں روک سکتا۔ آخر کار فوجی حکومت کو مظلوموں کو اُن کا حق دینا ہی ہوگا، اور جتنا ظلم وہ کریں گے، اس کے مکافات کے لئے اُنہیں تیار رہنا چاہئے۔ مصر کے22 میں سے 16 صوبوں [محافظات] میں صدر مرسی کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور حالیہ ظلم وستم نے اس حمایت کو مزید وسیع کردیا ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی قریبی انتخاب پہلے سے زیادہ دینی جماعتوں کو اکثریت عطا کرے گا۔ مصر کے ان علاقوں میں ہی سیکولر باشندوں کی اکثریت پائی جاتی ہے جو بڑے شہروں اور اس کے گرد ونواح ہیں لیکن یاد رہے کہ وہی پورا مصر نہیں ہیں۔ 2. جمہوریّت کے ذریعے غلبہ اسلام مصر کی صورتحال میں اسلامی تحریکوں کے لئے غلبہ اسلام کی حکمتِ عملی کے حوالے سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ جمہوریّت کے ذریعے اسلام کو غالب کرنے کی داعی جماعتیں، یہ تجربہ ترکی، الجزائر، فلسطین، تیونس، لیبیا اور مصر میں زبانِ حال سے دیکھ رہی ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے حالات بھی اس جمہوری ماڈل پر چل رہے ہیں۔ طالبان کے افغانستان، انقلابِِ ایران اور سعودی عرب میں بھی اسلامی نظامِ حکومت کے کامیاب تجربات ہوچکے ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے غلبہ اسلام کی کوششوں کا سوال دینی تحریکوں میں ایک طرف نظریاتی وشرعی پہلو اور دوسری طرف واقعاتی امکانات کے حوالے سے اہم ترین موضوع ہے۔ مسلم معاشروں میں بہت سی تحریکیں اس فکر کی حامل ہیں،بالخصوص سلفی نقطہ نظر یہ ہے