کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 15
کرنے پر وہاں کے نمازی اس سے اُلجھ پڑے اور اس کوبچانے کے لئے پولیس کو آنا پڑا۔ مصر انتہاپسندی اور خانہ جنگی کے راستے پر پاکستان اور مصرکے حالات میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، ان دونوں ملکوں کی افواج اپنے ہی عوام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اپنے کلمہ گو بھائیوں اور اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانا بڑا دل گردے کا کام ہے۔گو کہ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں عوام نے ان جماعتوں کو واضح مینڈیٹ سے نوازا ہے جو عوام اور فوج کے مابین گولی سے فیصلہ کی بجائے مفاہمت ومعاہدوں کی نہ صرف قائل بلکہ داعی بھی ہیں اور اس طرح عوام کا ایک واضح موقف سامنے آگیا ہے۔ تاہم اس پر ابھی حکومت اور فوج کے درمیان کلی مفاہمت اور اتفاقِ رائے باقی ہے۔ پاکستان میں ماضی کی جارحانہ کاروائیوں سے ملک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوچکا ہے اور عوام پاکستان کے جان ومال غیرمحفوظ ہیں۔ حکومت اب معاہدوں کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ سلسلہ اتنا اُلجھ چکا ہے کہ کبھی عالمی سیاست کے مہرے اس امکان کو دھندلا کر بداعتمادی کی فضا تان دیتے ہیں تو کبھی ماضی کے تلخ واقعات، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے میں گریز کا سبب بنتے ہیں۔ اس سب کے باوجود جب حکومتی ادارے، اس جوابی تشدد اور قتل وغارت پر قابو پانے اور عوام کو تحفظ دینے میں لگاتار ناکام رہے ہیں اور انتشار پسند جب چاہیں دہشت گردی میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مزید عوامی ہلاکت خیزی کی بجائے حکومت کے پاس مفاہمت کے علاوہ اب کوئی آپشن ہی باقی نہیں ہے۔ یہ تلخ صورتحال مصر اور اس کے حالیہ حکمرانوں کے لئے عبرت کا بہت سا سامان رکھتی ہے۔ مصر میں فوجی جوان، اپنے ہی مسلم بھائیوں پر سنگینیں کھول دیتے ہیں اور اُن کو یہ حکم جاری کرنے والے لمحہ بھر کے لئے اُس کے سنگین نتائج پر غور نہیں کرتے۔ فوجی بھی اپنی تنخواہ اور فوج کے داخلی نظم کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے اپنے دین وایمان کے کھلے تقاضوں سے صرف ِنظر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ یہاں رکنے کا نہیں بلکہ یہ صرف نقطہ آغاز ہے، اس کے بعد اس مصری المیہ میں اتنے بہت سے عناصر داخل ہوجائیں گے کہ اصل تصویر دھندلی ہوتی جائے گی اور ڈور کے سرے اُلجھتے جائیں گے۔ ظلم وستم پر قائم نظام ہو یا کسی مستحکم نظریے کی بنیاد پر مزاحمت، ان کا اختتام کبھی ختم نہیں ہوتا...!!