کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 14
الحق، ونقف مع المظلوم ومع حقوق الشعب المصري المعتدى عليها... اتهم الغرب بالوقوف مع الاستبداد والعُنف إذا كان ضدّ الشعوب المسلمة، سواء كانت تواجه حرب إبادة كما في سوريا، أو انقلابًا ومصادرة للحقوق كما في مصر، لافتًا إلىٰ أن الغرب بمعاييره المزدوجة يدفع المنطقة للفوضى ويؤسس لثقافة العُنف... العالم كله ووسائل الإعلام أن يتقوا اللّٰه في مصر وأهلها، وأن ينحازوا للحق، أكد على دعم المطالبين بعودة الرئيس المنتخب الدكتور محمد مرسي" ''مصر ی انقلاب مصلحانہ ہرگز نہیں بلکہ اسلام اور مصری قومی مصالح کے خلاف ہے، جس میں مصر ی فیصلوں کی آزادی اور اس کی حاکمیت پر ضرب ِکاری لگی ہے۔...ہم اخوان المسلمین کی بجائے حق کے دفاع میں اُن کے ساتھ ہیں، مظلوم کے ساتھ اور زیادتی کی شکار مصری قوم کے ساتھ کھڑے ہیں...مغرب کا قصور یہ ہے کہ جب مسلم معاشروں کا مسئلہ ہو تو وہ ظلم وتشدد کا حامی ہوتا ہے، جیسا کہ شام کو نابود کرنے کی جنگ اور مصر میں اس کا یہ دوہرا رویہ بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کے یہ دوہرے معیار عرب معاشرے کو افراتفری اور انتہاپسندی کے کلچر کی طرف لے جارہے ہیں... دنیا بھر اور میڈیا کو مصر اور اس کے شہریوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہئے، حق کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے اور یہ بیان مظاہرین کے اس مطالبے کی مکمل تائید کرتا ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی کو بطورِ صدر واپس لانا چاہئے۔'' مذکورہ بیان پر دستخط کرنے والے علما میں عبد العزیز بن عبد المحسن الترکی، حسن بن صالح الحمید، عبد العزیز بن محمد الفوزان اور محمد بن سلیمان البراک کے نام نمایا ں ہیں۔ سعودی علما کا یہ بیان ان ائمہ حرمین کے خطابات کے مماثل ہے جس میں وہ سرکاری پالیسی کے خلاف اپنے ایمان پرور موقف کو شاذ ونادرمنبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ یا مذکّرة النصیحة نامی اس مشترکہ یادداشت کی مانند ہے جو 20 برس قبل سرزمین حرمین پر امریکی افواج کی آمد کے موقع پر 200 سعودی علما نے پیش کی تھی۔سعودی عوام میں مصر کے بارے میں حساسیت اس قدر زیادہ ہے کہ میڈیا کے مطابق ریاض کی ایک مسجد میں گذشتہ دنوں جنرل سیسی کی حمایت