کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 13
اسلامی حکومت سے قائدانہ کردار کی توقع ہوتی ۔اُن کی ہر ممکنہ کوششوں کی وجوہات واضح ہیں لیکن ملتِ اسلامیہ کو حقیقی افسوس تو مصر کی معتبر ترین مذہبی قیادت شیخ الازہر احمد الطیب سے ہے، جنہوں نے شرعی مصالح اور گھمبیر حالات کا گہرا اِدراک کئے بغیر غاصب حکومت کے جواز کا فتویٰ جاری کردیا۔ یہ وہ پہلا شب خون تھا جو گھر کے اندر سے کیا گیا، پھر اس کے بعد سعودی حکومت کی طرف سے غاصب حکومت کو مبارکباد اور اس کی مالی امداد کا اعلان، بعد کے دنوں میں بھی بے مقصد بیان بازی جس سے مظلوم حکمرانوں کو کوئی تائید حاصل نہ ہوسکے۔ افسوس اس پر بھی ہے کہ او آئی اسی اور عرب تنظیم وغیرہ کی طرف سے آج تک کوئی معقول اقدام سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کی حکومت سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مصر میں جمہوری حکومت پر مارے والے اس شب خون کی مذمت کرے، جب کہ بارہ برس قبل وہ خود ایسے ہی المیہ کا شکار ہوچکی ہے اور اس ظلم کی شدت کو بآسانی سمجھ اور محسوس کرسکتی ہے۔پاکستان کی دینی جماعتوں بالخصوص جماعۃ الدعوۃ بھی خاموش ہے، جو غلبہ اسلام کے نام پر پاکستان بھر سے صدقات جمع کرتی ہے، کیونکہ اس مذمت واحتجاج سے فوج کی عظمت پر زَد پڑتی ہے۔اُمّتِ اسلامیہ کے حکمران اور ملّی ادارے اس قدر بانجھ ہیں یا ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ملت کا درد سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ کم از کم کسی مسلمہ برائی پر کھلی مزاحمت کی بجائے ، اس کی رسمی مذمت ہی ضروری سمجھی جاتی۔ اس سے بہتر تو وہ یورپی یونین ہے جس کی چیئرپرسن کیتھرن ایشٹن نے مرسی سے باضابطہ پہلی ملاقات کرکے، رسمی طور پر ہی سہی، لیکن اس کی اخلاقی حمایت کرکے مسلم قیادت کو شرمندہ کردیا۔ازہر کے سربراہ کے اسی ناروا اقدام کا یہ نتیجہ ہے کہ بغاوت کے بعد کے دنوں میں جنرل سیسی کی طرح ازہر یونیورسٹی سے 'اُرحل شیخ الازہر، ارحل شیخ الازہر' (یعنی گو، گو) کے بینر لئے اساتذہ وطلبہ کی ریلیاں نکلتی رہیں۔ایسے ہی سعودی حکومت کے گومگو والے بیانات کا کفارہ سعودی عرب کے 56 علما کے ایک مشترکہ بیان نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کوظلم وفساد سے تعبیر کرتے ہوئے قرار دیا ... "الانقلاب لم يكن انقلابًا تصحيحيًّا ولكنه انقلاب لإقصاء التيارات الإسلامية والوطنية، ومنع الاستقلال الحقيقي لقرار مصر وسيادتها... لا يدافعون عن الإخوان المسلمين، بل عن