کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 124
نے اپنا ایک علیحدہ مرکز اور گروہ بنا لیا۔ پھر اپنی شناخت کے لئے کچھ اختلاف بنالئے گئے اور کچھ بن گئے اور راولپنڈی میں ان کا مشہور مناظرہ بھی ہوا تھا جس میں گھر کے بھیدی محمد علی نے مرزا محمود کے کردار کی حقیقت خوب آشکار کرکےثابت کیا کہ ایسا آدمی خلیفہ بننے کا اہل نہیں ہے۔ قادیانیت کے خلاف درجنوں کتب کے مصنف محترم جناب طاہر عبدالرزاق نے 'قادیانی سازشیں' کے عنوان پر گرج دار لب و لہجہ میں خطاب فرماتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہم کی تحفظِ ختم نبوت کےلئے لازوال قربانیوں ، اسود عنسی کو قتل کرنے اور ماضی میں اُمتِ مسلمہ کے جرأت مندانہ کردار کوبیان کرتےہوئے قادیانی فتنہ سے عوام کو بچانے پر زور دیا۔اُنہوں نے کہا کہ سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہما سے اپنی زندگی بھر کے بدلے اُن کے ایک دن اور ایک رات کا عمل کا مطالبہ کیا تھا، اور وہ دونوں صدیقی عمل رسالت مآب کے تحفظ کے حوالےسے ہیں: ہجرت کے ساتھی اور اس دوران رسول کریم کے مدافع اور مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر کشی پر اصرار ... اس سے تحفظ رسالت کے عقیدہ کی اہمیت آشکار ا ہوتی ہے۔ نمازِ عصر کے بعد اس پروگرام کے آخری لیکچر میں مناظر اسلام مولانا خاور رشیدبٹ صاحب نے 'مرزا کی حقانیت کےدلائل اور ان کی حقیقت' کےعنوان پراپنے مخصوص مناظرانہ اور تدریسی و علمی انداز میں قرآن مجید کی آیت ﴿فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرً‌ا مِن قَبلِهِ﴾ [1]سے مرزائیوں کے استدلال کو توڑتے ہوئے مرزائی کتب کے حوالوں سےمرزا قادیانی کے بعض واقعاتِ زندگی پیش کیے جو کہ اس کے مجدد و مسیح ومہدی اور نبی کے معیار پر پورا نہ اُترنے کے واضح ثبوت تھے۔ اسی طرح مرزا کی حقانیت کے لئے سنن دارقطنی کے حوالے سے ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ مہدی کی زندگی میں یکم رمضان کو چاند گرہن اور نصف رمضان کو سورج گرہن ہوگا۔ اور مرزا کی زندگی میں ایسے ہوا ہے لیکن یہ روایت کسی طرح بھی ان کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں بلکہ یہ تو امام باقر کی طرف منسوب ایک قول ہے اور یہ امام باقر سے بھی ثابت نہیں بلکہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں جابر رضی اللہ عنہ جعفی اور عمرو بن شمر ہیں اور اس میں بھی یکم رمضان اور نصف رمضان کو گرہن لگنےکی بات ہے جبکہ مرزا کی زندگی میں چاند گرہن یکم نہیں بلکہ 13 رمضان اور سورج کو 15 رمضان نہیں بلکہ 28 رمضان المبارک کو گرہن لگاتھا لہٰذا یہ کسی اعتبار سےبھی مرزائیوں کی دلیل نہیں بنتی۔ جامعہ کے سینئر اساتذہ کرام بالخصوص جناب شیخ الحدیث اور مدیر التعلیم، ان محاضرات میں باقاعدگی سے تینوں دن موجود رہے۔ پروگرام کے آخری دن آخری محاضرہ کے بعد اُستاذِ محترم شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی صاحب نےطلبہ کو نصیحت کی کہ علم کے ہتھیار سے مسلح ہوکر اور اس میں مہارت پیداکرکے میدان میں اُتریں اور فتنہ قادیانیت کے خلاف بھرپور انداز میں کام کریں اور حافظ حسن مدنی صاحب نے اپنے اختتامی کلمات میں اس کورس اور کام کی اہمیت اور مقصد کو واضح کرتے ہوئے ماضی میں اسلاف کی خدمات اور کام کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ہمیں اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرکے ماضی کے کردار کو پھر سے زندہ کرناہوگا تبھی ان کے حقیقی وارث ہونے پر فخر کرسکیں گے۔ اُنہوں نے طلبہ کو توجہ دلائی کہ مرزا کے خلاف پہلا فتویٰ اہل حدیث تحریک کی
[1] سورہ یونس : 16