کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 12
پر اُنہوں نے بساطِ حکومت لپیٹ کر اعلیٰ عدلیہ کے اشتراک سے جمہوریت پر شب خون مار لیا۔ جنرل سیسی نے چیف جسٹس عدلی منصور کو سربراہِ حکومت قرار دے کر، یہ واضح کردیا کہ یہ سب ایک گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے اور عدلیہ کو اہم ترین عہدہ دے کر گویا اس اقدام کے قانونی حیثیت کے جائزہ لینے کا راستہ بھی اُنہوں نے مسدود کردیا۔ غاصب حکومت نے جس عجلت میں حکومت پر قبضہ جمایا ، جب کہ باوجود بھرپور کوشش کہ وہ صدر مرسی کی حکومت پر کوئی واضح الزام عائد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، اس سے ان کی اخلاقی کمزوی اور حالات پر عدمِ کنٹرول کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مادی ترغیبات، اور دنیوی تعیشات میں لتھڑے ہوئے لوگ، اس جواں مردی اور جذبہ و حمیت سے تبدیلی کا کبھی مستحکم تقاضا نہیں کرسکتے اور دنوں میں بکھر جاتے ہیں۔ مصر میں 'تحریک تمرد 'کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 29 جون تا 2 جولائی2013ء کے دوران قاہرہ کے 'التحریر سکوائر' میں ہونے والے تین روزہ سیکولر احتجاج میں عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق 96 خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ[1] بنایا گیا اور اس پر مصر میں حقوقِ نسواں کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں واویلا کررہی ہیں۔ بعد ازاں غاصب حکومت کا، آغازِ کار میں بعض دینی تنظیموں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کرنے کا جھانسہ دینا، اخوان المسلمین کو ثالثی کے لئے آمادہ کرنا، شیخ الازہر کی سربراہی میں مفاہمت کمیٹی کا قیام، اور مصری عوام سے آئے روز کی جانے والی اپیلیں یہ واضح کرتی ہیں کہ غاصب اپنے انجام سے کس قدر پریشان اور اُس کے لئے ہرطرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ پھر میدانِ رابعہ عدویہ میں اخوان کے احتجاجی اور مکمل پرامن دھرنوں سے اُن کی اپیلیں اور آخر میں ان پر بدترین تشدد، نامور قائدین کو دھمکانا، ان کے عزیزوں کو شہید کرنا، اور اُن کو گرفتار کرلینا وغیرہ جیسے سنگین اقدامات حکومتی عناصر کی کمزوری اور ہر صورت میں حالات میں قابو پانے کی ناکام کوششوں کا مظہر ہیں۔ عالمی اداروں کی تحریص و ترغیب تو سمجھ میں آتی ہے کہ مصر جیسا اہم مسلم ملک اگر اُن کے ہاتھ سے نکل کر اسلام کا گہوارا بن جاتا ہے تو اس سے مغربی و امریکی غلبہ اور عالم اسلام میں ان کے مفادات پر کاری ضرب لگتی ہے۔آج شام پر ہونے والی ممکنہ عالمی جارحیت میں مصر کی
[1] 'ہیومن رائٹس واچ، نیویارک' کی رپورٹ: Egypt Epidemic of Sexual Violence