کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 118
جن کا موضوع امام بخاری اور ان کی صحیح پر کیے گئے اعتراضات کی نقاب کشائی کرنا تھا ۔ اُنہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ منکرین حدیث حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ اُنہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،امام زہری اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو منکرین حدیث اس لیے ہدف تنقید بناتے ہیں کیونکہ علم حدیث میں جس قدر ان ہستیوں کی جہود نمایاں ہیں،کسی اور کی نہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں روایتِ حدیث کے حوالے سے امتیازی شان رکھتے ہیں جبکہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ تابعین میں بلند پایہ مقام کے حامل ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب'أصح الکتب بعد کتاب اللہ ' کے عظیم الشان لقب سے ملقب ہے۔ لاہور کی اس عظیم مادرِ علم میں تقریب بخاری شریف کے موقع پر بڑے مدارس کے شیوخ الحدیث کوخطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ چنانچہ مشہور محقق ومناظراور مفتی مولانا ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے اس بات پر تفصیلی گفتگو کی کہ کس طرح بعض مذہبی حلقے تقلید کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر احترامِ علما کے نام پر حدیث رسول سے اِعراض اور عملاً اس کی توہین کرتے ہیں۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس ناروا سلوک کی اُنہوں نے کتب فقہ حنفیہ سے با حوالہ بہت ساری مثالیں بھی پیش کیں۔ رات کے تقریبا گیارہ بج چکے تھے، عِشاء اور عَشاء دونوں میں تاخیر ہورہی تھی لہذا نقیبِ محفل سید علی القاری حفظہ اللہ نے کچھ دیر کے لیے تقریب کی کاروائی کو روکا اور شرکاے محفل کو کھانے کی دعوت دیتے ہوئے نمازِ عشا ادا کرنے کا کہا اور بتایا کہ جلد ہی دوبارہ تقریب حسبِ سابق رواں دواں ہو گی۔ شرکاے محفل نے نمازِ عشا محترم جناب قاری حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ کی اقتدا میں ادا کی جنہوں نے حجازی لہجے میں تلاوتِ قرآن سے ایک روحانی سماں پیدا کردیا۔ نمازِ عشاء سے فراغت کے بعد ایک دفعہ پھر یہ علمی مجلس سجی اور تلاوتِ کلام پاک کے بعدجامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے شیخ الحدیث محترم جناب حافظ عبد الغفار المدنی حفظہ اللہ کا ناصحانہ خطاب ہوا جس میں اُنہوں نے اپنی رواں بیان کے ذریعے علمی و عوامی ہر دو طریقوں سے اتباعِ قرآن و سنت کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور بتایا کہ آج ان دونوں کو چھوڑ کر ہم کس طرح گمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد راقم نے جو اِن دنوں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، عربی زبان میں اپنی مادرِ علمی اور اپنے اساتذہ کی خدمت میں کلماتِ شکر وتقدیر پیش کیے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ کس طرح جامعہ کے منتظمین اور اساتذہ نے ان تھک محنتیں اور کوششیں کرکے ان کی زندگی بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ ابناء الجامعہ کس طرح مدینہ منورہ میں بھی مختلف تعلیمی ودعوتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے اور جامعہ کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔ رات ساڑھے بارہ بجے دستار بندی اورتقسیم اسناد کا مرحلہ آیا تو مہمانان سے سندِ فضیلت پانے والوں کو مختلف انعامات واکرامات اور شیلڈز سے نوازا گیا۔ اس کے بعد جامعہ ہذا کے استاذ جناب قاری عبد السلام عزیزی حفظہ اللہ نے اپنے مخصوص لہجے میں تلاوتِ قرآن پیش کی تو سامعین تسبیح و تہلیل کی صدائیں بلند کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس علمی محفل کا آخری دور شروع ہوا تو جامعہ ہذا کے شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی حفظہ اللہ نے حجیتِ حدیث اور اعتصام بالکتاب والسنہ پر زبردست نکات بیان کیے اور کہا کہ قرآن میں جگہ جگہ احادیث رسول کا حوالہ دیا گیااور ان کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اور قرآن اسی بات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو حجّت ہو لہٰذا منکرین حدیث انکار حدیث کے