کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 116
حامل ہیں لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب ا ایک ہی مسلک ہے؟ یا ان میں کچھ فرق بھی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے درمیان اجتہاد اور اتباع کے طریقہ کار کا فرق ہے۔ تابعین کے زمانہ میں حضرت سعید بن مسیّب اور ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہم کے رجحان سے اہل حدیث اور اہل رائے کے دو گروہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان حدیث و فقہ کی بنیاد پرتقسیم کا مسئلہ نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ امام مالک اورامام بخاری علیہما الرحمۃ کو نامور فقیہ ہونے کےباوجود اہل حدیث میں شامل کیا جاتا ہے اور ابراہیم نخعی کو محدث ہونے کے باوصف اہل رائے میں شمارکیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ما اَنزل اللّٰه کا اتباع کرنا اور شریعت پرعمل کرنا ضروری ہے اور فقہ کو ما انزل اللّٰه نہیں کہا جاسکتا حتیٰ کہ ہم اجتہادِ صحیح کو بھی ما انزل اللّٰه سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے کہا کہ افسوس ہمارے پڑھے لکھے حضرات بھی اس فرق سے واقف نہیں لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں فقہ نافذ نہ کریں گے تو انارکی پھیل جائے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا فقہ کی بجائے ماانزل اللہ کو نافذ کرنے سے سعودی عرب میں انارکی پھیل گئی ہے اور اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کہاں انارکی ہے؟ حالانہ ہر جگہ شریعت کا نفاذ تھا ، کسی خاص فقہ کا نہیں۔ اُنہوں نے کہا طالبان نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دستور میں حنفیت کو شریعت قرار دیا ہے جبکہ ایران نے جعفریت کو شریعت مانا ہے ، ایسے ہی ہمارےملک میں کسی جدید فقہ کو شریعت کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ وہ جدید فقہ کسی طور بھی امام شافعی یا مالک، امام احمد یا ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کی فقہ سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں خیر ہے کیونکہ وہاں کتاب و سنت نافذ ہے۔ شاہ عبدالعزیز کو مصری علما نے کہا تھا کہ ہم آپ کو فقہی قانون تیار کردیتے ہیں، مگر اُنہوں نے جواب دیاکہ مجھے کتاب وسنت کی موجودگی میں ضرورت نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اجتہاد کا تعلق جج صاحبان کےساتھ ہے، اُنہیں شریعت کا ماہر ہونا چاہیے تاکہ وہ کتاب و سنت کےمطابق فیصلے کرسکیں۔ کتاب وسنت کے ماہر جج وقاضی حضرات کو ایسے لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند نہیں ہونا چاہئے جو شریعت کی مبادیات سے بھی ناواقف ہیں لیکن رکن اسمبلی ہونے کی بنا پر قانون سازی کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم اپنی جامعہ میں اسلامی شریعت اور اسلامی معیشت کے مضامین میں ایم فل، پی ایچ ڈی کروائیں گے اور عہدِ حاضر کے سودی وعدالتی نظام کو موضوعِ بحث بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری کا تصور سُودی بینک کاری سے بھی بدتر ہے کیونکہ عام بینکاری کو عوام نے اسلام سمجھ کر نہیں بلکہ کفر سمجھ کر اپنایا تھا مگر اسلامک بینکنگ کواسلام سمجھ رکھا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ علم دراصل امتیاز اور نکھار کا نام ہے۔ آپ صاحبِ علم نہیں اگر موجودہ فتنوں کو نہیں پہچانتے۔ اُنہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق جو شخص فتنوں کونہیں جانتا، وہ اسلام کو ایک ایک ٹکڑا بنا کر توڑ دے گا۔ اُنہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے معاشرے میں جاکر دین کا کام کیا ہے۔ ہمیں بھی مساجد ومدارس میں تعلیم وتربیت حاصل کرکے معاشرے میں جاری فتنوں کاسامنا اور مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہی میں اپنے ابناء الجامعہ کو پیغام دینا چاہتا ہوں۔ نمازِ عصر سے نصف گھنٹہ قبل یہ اجلاس دعاے خیر پر اختتام پذیر ہوا اور طلبہ واساتذہ کو پرتکلف ظہرانہ پیش کیا گیا۔ پھر اسی روز بعد نمازِ عصر جامعہ لاہور اسلامیہ (البیت العتیق) میں ہونے والی 'کتاب وسنت کانفرنس' میں فضلاے جامعہ کو بسوں کے ذریعے پہنچایا گیا۔ البیت العتیق میں نمازِ عصر سے اگلے دن نماز فجر تک جاری رہنےوالی اس کتاب وسنت کانفرنس میں