کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 114
کا کام ہے او ریہ بڑا عظیم مشن ہے ۔ یہی مشن ہمارے تعلق اور محبت کی بنیاد ہے،اللہ کے لئے محبت کرنا اور اللہ کے لئے بغض رکھنا سب سے افضل کام ہے ،اتنے سخت موسم میں اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا اور سفر کی تکلیف برداشت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ حضرات کو دین اور اس ادارے، علم او راہل علم کے ساتھ محبت ہے۔اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دین کو دنیوی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں۔اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مشن کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین! مولانا رمضان سلفی کے ان زرّیں ارشادات کے بعد جناب مدیر التعلیم نے فضلاے جامعہ کی نمائندگی کے لئے جامعہ ہذا سے 1997ء میں تکمیل علم کرنے والے جناب قاری صہیب احمد میرمحمدی کو اپنے خیالات پیش کرنے کی دعوت دی۔ قاری صہیب احمد میرمحمدی حفظہ اللہ قاری صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ اللہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں دین کے فہم وبصیرت سےنوازا ہے او رہمیں خيركم من تعلم القرآن وعلّمه کامصداق بنایا ہے،ا س پر ہمیں اللہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا قیام کیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں اللہ کاشکرگزار بندہ نہ بنوں؟ اُنہوں نے دین اور اس مشن کے ساتھ وابستہ رہنے کو ہی عزت قرار دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ''جاہلیت میں ہم ذلیل تھے، اللہ نے اسلام دے کر ہمیں معزز بنایا ہے، اگر ہم اس کے علاوہ عزت تلاش کریں گے تو ذلیل ہوجائیں گے۔'' اُنہوں نے کہا کہ اللہ کا راستہ بہت طویل ہے اور ہماری عمریں بہت قلیل ہیں: فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظراور کوئی شخص تنہا ا س راہ کو طے نہیں کرسکتا ، جب اللہ تعالیٰ کی توفیق خاص ہمارے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا میں اپنے اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ہم اس مشن پر گامزن ہوں اور آخر حیات تک اس پر گامزن رہیں۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس علمی مشن پرصبر واستقامت کے ساتھ قائم رہنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین اس مختصر اور نمائندہ خطاب کے بعد ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے جامعہ ہذا میں صحیح بخاری کی تدریس فرمانے اور دیگر علوم کا فیض پھیلانے والی شخصیت شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کو ان الفاظ میں دعوت دی کہ میں جس شخصیت کو دعوت دے رہا ہوں، یہاں ہم سب ان کے شاگرد موجود ہیں، اور ان سے تلمذ کی یہ نسبت ہم سب کے لئے باعثِ فخر ہے۔ یہ وہ مایہ ناز شخصیت ہیں جن کا پاکستان بھر کے علماے کرام میں غیر معمولی احترام ومرتبہ پایا جاتا ہے اور جلیل القدر اہل علم ان کو 'حضرۃ الاستاذ' کے مبارک نام سے پکارتے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ حافظ صاحب نے فرمایا کہ میری تربیت میں حضرت عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ عبد الرحمٰن مدنی کے والد حافظ محمد حسین روپڑی کا بہت حصہ ہے۔ میں نے حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ او رحافظ عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ میں اور مدنی صاحب ، اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ 60 کی دہائی میں جامعہ اہل حدیث چوک دالگراں ، لاہور میں پڑھتے تھے۔جامعہ اہل حدیث دالگراں میں کسی افسر نے ہم سے پوچھا کہ کیا یہ تجارتی ادارہ ہے۔ ہم نے کوئی جواب نہ دیا تو ہمارے استاذ حضرت محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: آپ نے کیوں نہ کہا: هل ادلكم عليٰ تجارة۔ کہ