کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 113
تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع کردے تو اس کے گرد بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ جامعہ ہذا کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ اس میں ملک کے نامور اور فاضل اساتذه ماضی سے آج تک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، کئی اساتذہ کرام پچھلے تین عشروں سے تواتر سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ اس ادارے کی انتظامیہ کو یہی اعزاز کافی ہے۔ اُنہوں نےکہا کہ اس ادارے کے کئی ایک امتیازات ہیں، اس کی رحمانیہ برانچ میں کلیہ دراساتِ اسلامیہ کی کلاسز ہوتی ہیں جس میں طلبہ کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے جبکہ جامعہ کی دوسری برانچ 'البیت العتیق' کے نام سے کام کررہی ہے۔ جس میں شعبہ حفظ کے ساتھ ساتھ شعبہ علوم دینیہ کی پہلی چار کلاسیں ہوتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ امر بھی باعثِ اعزاز ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جامعہ ہذا سے درجن سے زائد طلبا کامدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا ہے او روہاں ہمارے طلبہ ہر مرحلہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔حتیٰ کہ شعبان 1434ھ میں جاری ہونے والے سالانہ نتائج میں جامعہ کے فاضل عبد المنان نے مدینہ یونیورسٹی کے اہم ترین کلیہ شریعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکےجامعہ کا نام روشن کردیا ہے۔ اسی مرحلہ پر جامعہ ہذا کے ہی حافظ محمد زبیر مدنی نے پورے شریعہ کالج میں چھٹی پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ جامعہ ہذا کے ہی فاضل حافظ احسان الٰہی ظہیر نے عربی خطابت میں یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہ امر بھی باعث ذکر ہے کہ جامعہ کے چھ طلبہ کو مدینہ یونیورسٹی میں ایم فل کے درجے میں داخلہ کا اعزاز نصیب ہواہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جس طرح کوئی انسان بھی معصوم نہیں ہوتا ، اس طرح کوئی ادارہ بھی خامیوں سے پا ک نہیں ہوتا۔ آپ کو دعوت دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ادارے سے وابستہ رہیں اور اپنے اساتذہ کرام دعوت وتبلیغ میں رہنمائی اور مثبت مشورے لیتے رہیں، انتظامیہ کو بھی اپنے بہترین مشوروں اور دعاؤں سے مستفید کریں تاکہ ہم طلبہ کو زیادہ سے زیادہ بہترماحول او رمناسب سہولیات فراہم کرسکیں۔ مختصر سی تمہیدی گفتگو کے بعد جناب مدیر التعلیم حافظ حسن مدنی صاحب نے اساتذہ کرام میں ایک ممتازشخصیت کو حاضرین سے دعوتِ خطاب دی۔ نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی کا خطاب شیخ الحدیث صاحب نے اپنی بات کا آغاز قرآنی آیت سے فرمایا:قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ﴿انما یخشى اللّٰه من عباده العلموء﴾ارشاد فرمایا اور اس علم کا تعریفی کلمات میں ذکر کیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا شمار بھی اسی گروہ میں ہوتا ہے، لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جہاں بھی جائیں علم وعمل کی خوشبو بکھیریں۔ سرکاری اداروں میں ہوں یا نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں، وہاں علم پھیلانے کی جستجو کریں۔ اُنہوں نےکہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے ہاتھوں مستقبل میں دین کے محافظ تیارہورہے ہیں اور علم والا شخص ایسے ہی ہے، جیسے خوشبو بیچنے والا ہے جو خوشبو بکھیرتاہی رہتا ہے،لہٰذا آپ بھی علم دین پھیلانے میں اپنی صلاحتیں کھپا دیں۔ اُنہوں نےکہا کہ ہمیں خوشی ہےکہ ہمارے طلبا اپنی شکل و صورت سے الاسلام يعلو ولايعلي کا پیکر نظر آتے ہیں، اللہ ان کے باطن کو بھی اس بہتر ظاہر کے مطابق فرما دے۔ ہمیں کسی کے پیچھے نہیں جاناچاہیے بلکہ دوسروں کو اپنے اور دین اسلام کے پیچھے لگانا چاہیئے۔ اُنہوں نےکہا کہ اہل علم دراصل انبیا کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاے کرام اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ علم چھوڑتے ہیں لہٰذا نماز یں پڑھانا، خطبے دینا اور قوم کی اصلاح کا کام کرنا انبیا