کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 11
فرعونیت اور قہاریت سے بالکل مختلف نہیں۔ یہ وہ خوبصورت چہرہ ہے جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے اُنہوں نے سامنے سجا رکھا ہے، لیکن درحقیقت آج بھی کفر والحاد نہ صرف متحد ہے، بلکہ اسلام کے خلاف اُٹھنے والی ہر کوشش میں وہ یکجا نظر آتے ہیں۔ مصر میں ایک سال تک حسنی مبارک کی منظورِ نظر اعلیٰ عدلیہ نے ڈاکٹر محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو کسی طرح چلنے نہیں دیا۔منتخب پارلیمنٹ کو معطّل کرنے، اخوان کے نو تشکیل شدہ دستور کو کالعدم قرار دینے کے بڑے اقدامات سے لے کر ہر معاملے میں وہ منتخب حکومت کی مخالفت کرتے رہے۔مصر کے برسہا برس سے پروان چڑھنے والے لادین میڈیا نے مرسی کی حکومت کے خلاف ہر طرح کے انتشار کو نمایاں کرنے اور دین بیزار مصریوں کو جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عالمی برادری بشمول ملّتِ اسلامیہ کے نامور ممالک نے مرسی کی حکومت سے وہ ہمدردانہ رویہ نہیں رکھا، جو والہانہ پن اور محبت ابھی حال میں آنے والے غاصبانہ حکمرانوں کو دی جارہی ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں نام نہاد عالمی برادری نے ایک سال کے عرصے میں مصر کا معاشی ناطقہ بند کئے رکھا اور عالمی اداروں نے تعاون کا ہرممکن راستہ مسدود کردیا۔ مرسی کے ایک سالہ مشکل دور ِحکومت میں اُنہیں سعودی عرب سے چار اور قطر سے تین ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا،جبکہ غاصب حکومت دوماہ میں اس سے کہیں زیادہ گرانٹیں پا چکی ہے۔مرسی کو اپنی حکومت میں مغرب کے اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا جو قبل ازیں فلسطین میں اکثریت سے منتخب ہونے والی حماس کی جمہوری حکومت سہہ چکی ہے۔ اخوان المسلمین کے اعلیٰ رہنما عامر دراغ کے مطابق ''تمام تر جمہوری تقاضے پورے کرنے کے باوجود اُن کے پاس حکومتی اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے، حسنی مبارک دور کی فوج، پولیس اور نوکر شاہی نہ صرف احکامات کی تعمیل سے انکاری تھی، بلکہ ملک میں امن وامان کی بحالی اور لوٹ مار کو روکنے کی کوششوں میں روڑے اٹکا رہی تھی۔ ان ریاستی ستونوں کے ساتھ ساتھ حسنی مبارک سے ذاتی وفاداری کی بنا پر مسلط کی گئی عدلیہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے حکومت کے ہاتھ باندھے ہوئے تھی۔'' عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلے، لبرل میڈیا کی انتشار پسندانہ پالیسی، عالمی قوتوں کی سرد مہری بلکہ نفرت پرمبنی اقدامات نے مصری فوج کے لئے بآسانی وہ حالات پیدا کردیے کہ پہلی ہی وارننگ