کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 109
موضع پٹی کا تذکرہ ہوتے ہوتے قریب کے دو اسٹیشن چھوڑ کر شہر خوش نما ترن تارن کے ایک شگفتہ اور تاریخی واقعہ کی یاد آگئی جسے اوپر تحریر میں لاچکا ہوں۔ پٹی کے تھانہ کی بلند بانگ محل نما عمارت کے پہلو میں کئی کنال پر مشتمل ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا گیا جس میں درسِ نظامی ہائی سکول اور حفظ قرآنِ مجید اور قرات و تجوید کے شعبوں میں تعلیمات کا اجرا کیا گیا۔ اس دارالعلوم کی بنیاد تقسیم ملک سے دو ڈھائی سال پہلے ایک تین روزہ عالی شان کانفرنس کے انعقاد کےموقع پر رکھی گئی جس کی صدارت بھی حضرت مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی تھی۔ ضرورت کےمطابق بلڈنگ تیار ہوچکی تھی۔ ان سطور کے راقم نے اسی درس گاہ میں ناظرہ قرآنِ مجید اور سکول کی دو جماعتیں پڑھی تھیں۔ کانفرنس میں جن اسلاف اور صالحین کی زیارت کا مجھے شرف حاصل ہوا ان میں مولانا امرتسری، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حضرت حافظ محمد عبداللہ روپڑی، حافظ محمد حسین روپڑی،مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور امیر انجمن اہلحدیث پنجاب حضرت سید محمد شریف شاہ گھڑیالوی۔ نوجوان علما کی کثیر تعداد تھی جن میں سے چند معروف مولانا محمد عبداللہ ثانی، مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح، حافظ محمد اسماعیل روپڑی، حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا علی محمد صمصام، مولانا امیر الدین بھانبڑی، مولانا حافظ محمد ابراہیم باقی پوری ثم حافظ آبادی، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا نور حسین گرجاکھی او رمولانا عبدالمجید سوہدروی کے اسماے گرامی مجھے یاد ہیں۔ پاکستان میں آکر بھی یہ حضرات آخر دم تک تبلیغ و دعوت کتاب و سنت میں مصروف ہوگئے۔ حافظ عبدالرحمٰن پٹوی ثم قصوری اسٹیج سیکرٹری تھے۔اسٹیج کے دائیں بائیں رضا کاروں میں مولانا عبدالعظیم انصاری، حاجی محمد علی پٹوی ثم وہاڑی، میاں عبدالستار ، صوفی جمال دین پٹوی ثم عبدالحکیم ضلع خانیوال اپنے دیگر ساتھیوں کےہمراہ ڈیوٹیوں پر تھے او رنعروں کی بہاروں سے بھی مجمع میں ایک ولولہ پیدا کررہے تھے۔ اس دارالعلوم کے اصل بانی سید عبدالرحمٰن شاہ او رمیاں محمد عالم تھے۔ افسوس کہ یہ تعلیمی منصوبہ تقسیم ملک کی نذر ہوگیا لیکن ان صالحین کا جذبہ تقسیم ملک کے بعد بھی قائم رہا اور دونوں حضرات مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے، چنانچہ انہی کے تصور اور خاکہ