کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 108
اوربیٹھنے اُٹھنے میں عام طور پر اکٹھے دیکھے جاتے۔ حافظ صاحب چھوٹی عمر میں والدین کے سایہ سےمحروم ہوگئے تھے، اکیلے بھائی خود ہی تھے۔ ان کی جوان خوبصورتی او ربلند آہنگ تقریروں کا بڑا شہرہ تھا۔ خوش طبعی او رہردل عزیزی کے سبب تمام طبقات میں مقبول و معروف تھے۔ پٹی سے وہ جاذب ِنظر شہر ترن تارن ضلع امرتسر میں چلے گئے اور وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ مسجد کے قریبی میدان میں ہر سال سالانہ جلسہ منعقد کرتے جس میں والد صاحب باقاعدگی سے شرکت کرتے، تقسیم ملک سے چند ماہ قبل غالباً مارچ 1947ء کے سالانہ جلسہ پر والد صاحب مجھے بھی ہمراہ لے گئے۔ اب سنیے اس جلسہ کے ایک رات کے اجلاس کی روداد، جس کی صدارت حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے۔ اس دور کے نامی گرامی مقرر مولاناعبداللہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسحور کن آواز میں تقریر کررہے تھے کہ کسی نےمولانا امرتسری کے کان میں آکر عرض کیاکہ جلسہ کے ایک کونے میں حافظ محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ روپڑی او رحافظ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ روپڑی کھڑے ہیں جو کسی نزدیکی گاؤں میں تبلیغی پروگرام سے فارغ ہوکر یہاں پہنچ گئے تھے، ان دنوں روپڑی ثنائی نزاع جو علمی نوعیت کا تھا مگر عروج پر تھا اور دونوں طرف کے علما کے باہم مذاکرات و گفتگو میں بعض اوقات تلخیاں بھی پیدا ہوجاتی تھیں۔ ان کشیدہ احوال کے باوجود مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے روپڑی برادران کو پیغام بھیجا کہ وہ اسٹیج پر آجائیں چنانچہ دونوں بھائی اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے۔ مولانا ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کے بعد مولانا امرتسری نے دونوں کی تقریریں کرائیں۔ یاد پڑتا ہےکہ مولانا ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی توحید کے موضوع پر تقریر کو آگے بڑھاتے ہوئے حافظ محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ممتاز لحن داؤدی اور شیریں بیانی سےخطاب کیا۔ حافظ عبدالقادر نے ختم نبوت کے زیر عنوان دھواں دھار اور ولولہ انگیز تقریر کی جن کے بعد حضرت مولانا امرتسری نے اپنے روایتی حسن اخلاق او رکریمانہ اَقدار کا مظاہرہ فرماتے ہوئے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اختلافات اپنے مقام پر مگر یہ دونوں بچےمیرے بھتیجے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی او ران سے شفقت و پیار میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ تو سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔