کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 107
کہ وہ اپنی تصانیف میں اکثر توجہ دلاتے ہیں کہ ایک شخص کہاں تک معلومات فراہم کرسکتا ہے جبکہ ہمارے اسلاف کی دینی و اصلاحی اور دعوت و ارشاد کی خدمات کا دائرہ کار از حد وسیع ہے، بھٹی صاحب کی اسی ترغیب سے متذکرہ سطور تحریر میں لانے کا داعیہ پیدا ہوا۔ پیارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر بہاؤالدین مقیم برطانیہ جو تحریکِ ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث بڑی جانفشانی سے مرتب فرما رہے ہیں، اُنہوں نے بھی فون پرمجھے توجہ دلائی کہ آپ پٹی کے رہنے والے ہیں جو بڑا مردم خیز شہر تھا، اس کے بارے میں کچھ تو لکھیں۔ بہر کیف ڈاکٹر صاحب کا فرمان بھی سرتسلیم خم کرنے کے مترادف تھا، لیکن یہ عاجز تقسیم ملک کے وقت بچپن اور نوعمری میں تھا مگر والدِ گرامی کی علما سے محبت و شغف اور ہمارے غریب خانہ پر اُن کا آنا جانا تقسیم ملک سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایک عرصہ تک رہا جن کی صحبت و ملاقاتیں میرے لئے متاعِ عزیز ہیں او راس دور کی بھولی بسری یادیں ذہن میں تازہ کرکے سپردِ قلم کردیتا ہوں۔ عرض کیا جارہا تھا کہ مدرسہ محمدیہ کے علاوہ بھی پٹی میں دینی مدارس تھے جن میں سے پرانے شہر کی جامع مسجد اہل حدیث میں قائم مدرسہ اعلیٰ سطح پر تھا جس کی مسند ِتدریس پر حضرت مولانا حافظ محمد حسین روپڑی(مدیراعلیٰ محدث حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ کے والد محترم)، حضرت حافظ حکیم محمد احمد اور خطیبِ مسجد حضرت مولانا عبدالرحمٰن فائز تھے اور اُس کے منتظمین میاں محمد عالم، میاں دین محمد، اُن کے والد میاں مولابخش اور میاں عبدالستار (جوماضی قریب میں سرگودھا میں انتقال کرگئے تھے)،مولانا حکیم عبدالرحمٰن آزاد (تقسیم ملک کے بعد گوجرانوالہ آگئے، مجلس احرار کے قائد اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے رہنماؤں میں سے تھے)، مولانا عبدالعظیم انصاری او رحافظ عبدالرحمٰن پٹوی ثم قصوری کی رہائشیں اور کاروبار اسی مسجد کے نواح میں تھیں۔ تمام اردگرد کا ماحول دینی تھا، اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی۔منڈی کی جامع مسجداہل حدیث کےخطیب نمونۂ سلف مولانا سیدعبدالرحمٰن شاہ تھے۔ ایک اور مضافاتی بستی میں مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح خطیب تھے جومدرسہ رحمانیہ دہلی سے تحصیل علم کے بعد پٹی آئے، وہ میرے والد کے جگری دوست اور صبح و شام اکل و شرب