کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 106
یاد رفتگاں محمد یوسف انور[1] چند بھولی بسری یادیں قصبہ پٹی (انڈیا) اگست 1947ء میں تقسیم ملک کےوقت متحدہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لاہور کےمتعلق قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ یہ ساراضلع پاکستان میں شامل ہوگا لیکن ہوا یہ کہ ضلع کی تحصیل قصور کے چار تھانے: کھیم کرن، گھڑیالہ، ولٹوعہ اور پٹی شرقی پنجاب میں شامل کردیے گئے۔ ان تھانوں میں سے 'پٹّی' ایک بڑا با رونق قصبہ تھا،آبادی او رپھیلاؤ کےلحاظ سے بھی وسعت رکھتا تھا، پرانے اور نئے شہر کے دو بڑے بازار کاروباری مراکز تھے۔ اس قصبہ کےقدیمی آباد کار مغلیہ خاندان کے لوگ تھے اس طرح پٹی کو مغلوں کی پٹی بھی کہا جاتا تھا۔ ہمارے فاضل اور محقق دوست مولانامحمد اسحٰق بھٹی نے اپنی تازہ تصنیف 'برصغیر میں اہل حدیث کی سرگذشت' میں پٹی کے ایک دینی مدرسہ محمدیہ کا مختصراً سا ذکر کیا ہے۔ مدرسہ کے اساتذۂ گرامی منزلت مولانا عبدالرحمٰن لکھوی، مولانا ہدایت اللہ ندوی اور مہتمم مولانا محمد علی قصوری تھے۔ بچپن میں ان سطور کے راقم کو ان حضرات کی مجالس اور زیارت کی سعادت حاصل ہے کیونکہ یہ مدرسہ ہمارے ہی محلہ مومن آباد کی وسیع و عریض مسجد میں قائم تھا۔ مدرسہ کے نگران و منتظمین میں مولانا محمد یحییٰ انصاری، اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد عبداللہ انصاری ، میرے والد اور کچھ دیگر صلحا تھے۔ بھٹی صاحب نے دوسرے مدارس کا ذکر نہیں کیا، شاید ان کے علم میں نہ تھے۔ یہی وجہ ہے
[1] نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ، پاکستان