کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 105
اسی طرح اُنہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بھی خوب خوب اہتمام کیا اور اُنہیں دنیوی علوم کے ساتھ دینی علوم سے بھی آراستہ کیا۔ چنانچہ ان کے دو بیٹے مولانا پروفیسر عبدالرحمٰن مکی حفظہ اللہ اور پروفیسر حافظ عبدالحنان حفظہ اللہ نہ صرف جدید وقدیم علوم کا حسین امتزاج ہیں بلکہ زبردست مبلغ، شعلہ نوا مقرر اور داعئ کبیر ہیں اور اللہ کی توفیق سے مرحوم باپ کے تبلیغی مشن اور دعوتی مقاصد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ان کوششوں کے نتیجے میں اُن کی وفات سے ان کی مسندِ رُشد و ہدایت اُجڑی نہیں، جیسا کہ بہت سےعلما کے ساتھ یہ حادثہ ٔالیمہ ہوا ہے، بلکہ وہ نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کا فیض جاری بلکہ روز افزوں ہے۔ پروفیسرحافظ محمدسعیدحفظہ اللہ، جو حافظ عبداللہ صاحب مرحوم کے خواہر زادے اور داماد بھی ہیں، ان ہی کے حُسن تربیت کا شاہکار ہیں۔ ان کے دست و بازو پروفیسر ظفر اقبال بھی حافظ صاحب بہاولپوری کے خوانِ علم کے خوشہ چین او رانہی کے تربیت کدے کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔ اُن کی جہد و مساعی کا دائرہ تبلیغ دعوت اور تعلیم و تربیت سے لے کر حرب و ضرب کے میدانوں تک وسیع ہے، یہ سلسلے بھی وسعت پذیر بلکہ عالم گیر ہیں۔ ایسے ہی مولانا حافظ عبدالغفور جہلمی رحمۃ اللہ علیہ ایک درویش منش عالم تھے۔ اُنہوں نے عمر کے آخری دور میں جہلم میں دعوت و تبلیغ کے علاوہ دینی مدارس و مساجد اور شفا خانوں کی تعمیر کا جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ یہ عمارات اور کارنامے جماعت اہل حدیث کا سرمایۂ افتخار ہیں۔ لیکن حافظ صاحب مرحوم کا بھی دوسرا بڑا عظیم کام یہ ہےکہ وہ سمجھتے تھے کہ ؏ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا... اس لئے اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی دینی علوم سے آراستہ کیا او راپنی مسند علم و عمل کا اُنہیں جانشین بنایا۔ آج الحمدللّٰہ، ان صاحبزادگانِ گرامی قدر کی مساعی، توجہ اور حُسن انتظام سے یہ ادارے مصروفِ عمل ہیں اور مردوں ہی میں علم کی روشنی نہیں پھیلا رہے، بلکہ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔علاوہ ازیں تصنیف و تالیف کے ذریعے سے بھی مسلک ِسلف کی خدمت اور ا س کی نشرواشاعت کررہے ہیں نیز عوام کی روحانی بیماریوں کے علاج کے ساتھ، ان کی جسمانی تکالیف کا اِزالہ بھی ان کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔ بارك اللّٰه لهم وعافاهم