کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 103
جدیدہ کے ساتھ علوم دینیہ سے بھی بہرہ ور ہیں، ان کی تقاریر سننے کا تو راقم کو موقعہ نہیں ملا، لیکن جن کو اس کا موقع ملا ہے، اُنہوں نے ان کی تقریری صلاحیتوں کی تعریف کی ہے اور اس کی بابت بہت اچھے تأثرات کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کو دین اور مسلک کی خدمت کی مزید توفیق سے نوازے۔ البتہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر کی بابت اس وقت ان کی صلاحیتوں اور عزائم کے بارے میں جن اچھے جذبات اور توقعات کا اظہار کیاگیاتھا، افسوس وہ نقش برآب اور ؏.. جو دیکھا خواب تھا، جو سنا افسانہ تھا کی مصداق ثابت ہوئیں۔کاش ایسا نہ ہوتا لیکن ماشاء اللّٰه كان وما لم يشأ لم يكن قضا و قدر کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے؟ تاہم ہم جیسے جماعت کے بے شمار ہم دردوں اور مسلک کے خادموں کے لئے یہ المیہ نہایت روح فرسا اور اعصاب شکن ہے۔سالہا سال پہلے جب اس کرب ناک المیے کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن حالات و آثار اس طوفان کی نشاندہی کررہے تھے، ان ایام میں ایک دو مرتبہ عزیز گرامی سےملاقات ہوئی، راقم نے ہر مرتبہ اُن کو یہی سمجھایا کہ وہ نوجوانوں کے نرغے میں اور پرستاروں کے جھرمٹ میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اُٹھائے کہ ؏ موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں! اُنہوں نے ہر مرتبہ یہی یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن جو ہونا تھا، وہ ہوکر ہی رہا۔ پہلے وہ علامہ احسان لٰہی ظہیر کا فرزندِ گرامی تھا، ملت کے مقدر کا ستارہ تھا، ہر اہل حدیث کی آنکھوں کا تارا تھا، ان کے روشن مستقبل کی اُمیدوں کامرکز تھا۔لیکن افسوس اُمیدوں کے یہ شیش محل چکنا چور ہوگئے، تمام حسین خواب بکھر گئے اور تب سے پوری جماعت ایک نہایت کرب ناک اذیت سے دوچار ہے۔ جماعت کے متعدد مخلصین نے اس صورتِ حال کے خاتمے کے لئے مختلف کوششیں کیں لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ یا کس کا زیادہ اور کس کا کم ہے؟ ا س بحث میں پڑے بغیر راقم جماعت کا ایک ادنیٰ کارکن اور مسلک کا ایک خادم ہونے کے ناطے دونوں فریقوں سے مخلصانہ او رہم دردانہ گزارش کرتا ہے کہ وہ اس کو انَا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ جماعت او رمسلک کے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور قربت کا راستہ اختیار کریں، ایثار و قربانی کا راستہ اپنائیں اور من تواضع لله کو شعار بنا کر رفعه اللّٰه پر یقین رکھیں۔ عہدہ و منصب، دنیاکی زندگی کی طرح ، فانی اور عارضی چیزیں ہیں، علاوہ ازیں یہ عزت