کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 102
عمل کی مشعلیں فروزوں کئے ہوئے ہیں جن سے جہالت اور شرک و بدعت کی تاریکیاں دور اور توحید و سنت کے چراغ روشن ہورہے ہیں۔ سلمهما اللّٰه تعالىٰ (3) حاجی ظہور الٰہی صاحب کے بیٹے محبوب الٰہی صاحب کی بابت عرض کیا گیاتھاکہ راقم اُن کی زیارت و ملاقات کے شرف سے محروم ہے (اور یہ محرومی تاحال قائم ہے) لیکن وہ بھی اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو حاجی صاحب مرحوم نے اپنے بیٹوں کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ خیال صحیح ثابت ہوا اور وہ حیدر آباد سے گوجرانوالہ آگئے ہیں اور کاروبار کررہے ہیں۔ جس میں اب اُن کے بیٹے بھی شریک ہیں لیکن الحمدللہ اُنہوں نے بھی حاجی صاحب مرحوم کا بیٹا ہونے کا ثبوت دے دیا ہے (ایسا بیٹا جیسا وہ چاہتے تھے) اور ماشاء اللہ محبوب الٰہی کا ایک بیٹا، فرمان الٰہی، علومِ قرآن و حدیث کے زیور سے آراستہ ہوکر دعوت و تبلیغ کے اسی قافلے کے ہم رکاب ہے جو حاجی صاحب کی مخلصانہ کوششوں سے انہی کے خاندان کے اصحاب علم وفضل پر مشتمل ہے۔ راقم کو اس عزیز (فرمان الٰہی)کی ایک تقریر سننے کا اتفاق ہوا، جسے سن کر بے انتہا خوشی ہوئی، تقریر میں اس جوش وولولے کی فراوانی تو نہ تھی جو ان کے عم محترم علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خطابت کا طرۂ امتیاز تھا، لیکن وہ اخلاص، سادگی اور تاثیر یقیناً تھی جو ان کے دوسرے عم گرامی قدر محترم ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ سلّمہ اللّٰه حاجی صاحب مرحوم کے ایک بیٹے شکور الٰہی تھے جو اس وقت زندہ تھے جب مضمون لکھا گیا تھا، اب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ غفر اللّٰه له ورحمه... ان کی تعلیم کیا تھی؟ راقم اس کی تفصیل سے بے خبر ہے، غالباً والد مرحوم ہی کے ساتھ سٹیلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں رہائش پذیر تھے، راقم کی ان سے ملاقات رہی ہے، توحید و سنت کی غیرت ان کے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ایمانی غیرت کے اسی پیکر میں ڈھلے ہوئے تھے جو حاجی صاحب نے اپنے بیٹوں کے لئے تیار کیا تھا اور وہ خود بھی اس کا ایک حسین مرقع تھے۔ (4) حاجی صاحب مرحوم پر جب مضمون لکھا گیا تھا، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، انجینئرنگ میں زیر تعلیم تھے اور سبقاً سبقاً احادیث پڑھنے کا اور اپنے چھوٹے بھائیوں کوبھی دینی علوم سے آراستہ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ بلا شبہ ایسا ہی ہوا اور ماشاء اللہ حافظ ہشام الٰہی اور معتصم الٰہی بھی علوم