کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 101
میرا حکم تو یہ ہے کہ جامعہ محمدیہ میں داخل ہوکر دین کا علم حاصل کرو۔ میں نے انکار کیا اور اُنہوں نے اپنی رائے پر اصرار جاری رکھا۔ لیکن میں انکار ہی کرتا رہا، بالآخر فرمایا: فضل الٰہی! سی ایس پی افسر بن کر تمہیں جتنی تنخواہ ملے گی، وہ میں تمہیں دے دیا کروں گا لیکن تم دین کے عالم ہی بنو۔ لیکن میں پھر بھی آمادہ نہیں ہوا، اور سی ایس پی میں داخلے کے لئے انٹرویو کے لئے لاہور آگیا، اس انٹرویو میں بھی میں نہایت ممتاز نمبروں کے ساتھ پاس ہوگیا اور داخلے کے لئے منتخب کرلیا گیا۔ اس کامیابی کے ساتھ جب میں واپس گھر (گوجرانوالہ) جارہا تھا تو بس میں اللہ نے میرا ذہن یک دم بدل دیا اور میں نے واپس جاکر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخلہ لے لیا۔ میں ڈاکٹر صاحب کی زبانی یہ واقعہ سن کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ حیرانی اسی بات کی تھی کہ اللہ نے حاجی صاحب کے اندر اپنی اولاد کو دین کا خادم بنانے کی کس طرح لگن اور تڑپ پیدا کردی تھی اور خوشی اس بات کی کہ راقم نے ان کے جس کردار کو نمایاں کیا ہے، اس واقعے سے اس کی مزید تائید ہوگئی ہے۔ آج فضل الٰہی صاحب اگر ایک اعلیٰ افسر بنےہوتے تو دنیوی مراعات سے تو یقیناً وہ بہرہ ور ہوتے لیکن گم نامی ان کا مقدر ہوتی۔بے شمار افسرانِ اعلیٰ ہیں لیکن اُن کو کون جانتا ہے؟ لیکن جب اس فضل الٰہی نے والد صاحب کی نیک خواہش کو جامۂ عمل پہناتے ہوئے مدرسے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین کا علم حاصل کرلیا تو وہ ڈاکٹر فضل الٰہی بن کر علم و عمل کا آفتاب بنا ہوا ہے جس کی ضیا پاشیوں سے عرب و عجم کے بے شمار لوگ اکتسابِ فیض کررہے ہیں، ایک مینارۂ علم ہے جس کی کرنوں سے دنیا کا کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، منور ہورہا ہے، علم و عمل کا ایک چشمۂ صافی ہے جس سے علما بھی سیراب ہورہے ہیں اور تشنۂ عمل بھی اپنی جھولیاں بھر رہے ہیں، ورع و تقویٰ کا ایک سنگ میل ہے جس سے گم گشتگان بادیہ ضلالت راہ یاب ہورہے ہیں اور عہدِ سلف کی ایک یاد گار ہے جس کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستیاں ہیں۔ متّعنا اللّٰه بطول حياته وبارك في مساعيه و جهوده مذکورہ مضمون کی تحریر کے وقت ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کے دونوں بیٹے ریاض یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، اب وہ بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں او رنامور باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم و