کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 100
کے ساتھ حسب ِسابق غیرمشروط تعاون کریں ۔ اس وقت وہ طوفانوں سےکھیلنے والوں کا ساحل پر بیٹھے نظارہ کررہے ہیں اوربے دینی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے والے اور الحاد کےجھکڑوں سےنبرد آزما زبانِ حال سے اُن کی بابت کہہ رہے ہیں ... ؏ کجا دا نند حالِ ما سبک ساران ساحلہا وفّقهما اللّٰه وإیانا لما یحبّ ویرضٰی! (2) ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کی بابت جو کچھ عرض کیا گیا تھا، وہ اس وقت ریاض (سعودی عرب) میں تھے، اسی حوالے سے ساری گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد موصوف مستقل طور پر پاکستان آگئے اور کئی سال تک اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بحیثیتِ پروفیسر تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں گزرتا ہے اور ساتھ ساتھ الریاض کی طرح دروس و خطابات کے ذریعے سے تبلیغ ودعوت میں بھی خوب سرگرم ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔ پہلے اُن کی جن کتابوں کی فہرست دی گئی تھی، وہ اس وقت بیشتر عربی میں تھیں، اب خود موصوف نے اُن میں سے متعدد کتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھال دیا ہے اور مزید کئی نئی کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ یہ سب کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔النور کے نام سے ان کا اپنا ادارہ انہیں شائع کررہا ہے اور یہ کتب مکتبہ قدوسیہ لاہور سے بآسانی دستیاب ہیں۔ڈاکٹر موصوف حفظہ اللہ کی کتابیں اُن کے دروس و خطابات کی طرح نہایت علمی و تحقیقی ہیں، احادیث کی تحقیق و تخریج کا خصوصی اہتمام ہے۔یہ کتابیں عوام ہی کے لئے نہیں، خواص (اہل علم) کے لئے بھی نہایت مفید ہیں۔ حاجی ظہور الٰہی مرحوم کا مذکورہ کردار، بیٹے کی زبانی ڈاکٹر صاحب نے چند دن قبل اپنے والد مرحوم کے اس خصوصی کردار پر مبنی،جس کاذکر راقم نے خصوصی طور پر کیا تھا، اپنے ساتھ بیتا ہوا واقعہ راقم کو سنایا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: جب میں نے بی اے کا امتحان نہایت اعلیٰ نمبروں کےساتھ پاس کرلیا تو والد محترم نےپوچھا: فضل الٰہی! اب کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میں سی ایس پی کا امتحان دوں گا۔ والد محترم نے کہا: نہیں۔