کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 9
جبکہ اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ کونسل کی کوئی بھی سفارش، پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے متعدد مراحل سے گزرنے کے بعد بشرطِ منظوری ہی عدالتوں میں قانونی حیثیت اختیار کرتی ہے۔ 29 مئی کو سفارش کی گئی اور 3 جون تک لکھے جانے والے کالم میں اس کی ایک نظیر بھی یاسر پیرزادہ نے ڈھونڈ نکالی۔ اللہ کے بندے ، کوئی اینٹ روڑا مارنے سے پہلے یہ تو دیکھ لینا تھاکہ ہاتھ میں گوبر تو نہیں آگیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج شرقی ندیم احمد خاں کی عدالت سے لودھراں کی لڑکی کے مجرموں کی بریت کا فیصلہ دو ماہ قبل ،5/اپریل 2013ء کو ہوکر منظر عام[1] پرآچکا تھا، جب کہ ابھی اسلامی نظریاتی کونسل میں اس موضوع پر بحث بھی نہ ہوئی تھی۔
٭ یہ بھی یاد رہے کہ پیرزادہ کے مرشد کالم نگار کی رائے میں تو لودھراں والے واقعے میں ڈی این اے ٹیسٹ کا کوئی مرحلہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا، ایک اور کالم نگار کے خیال میں اس مقدمے کے مجرم بہت طاقتور ہیں، اُنہوں نے مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مدعیہ نے اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کی تھی اور اس بنا پر مدعیہ کے بھائی نے اس کو ' کاری'قرار دے کر قتل کرنے کی بھی کوشش کی ۔ مدعیہ کا بھائی ایسا نہ تو کرسکا تاہم دو ماہ بعد وہ خود ہی نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوگیا، کیا پیرزادہ اور ان کے مرشد صادق اس تمام تر لاقانونیت کا سبب بھی کونسل کو ہی قرار دیں گے؟ اور کیا وہ یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ملک کی عدالتوں میں برسوں کی تاخیر سے آنے والا فیصلہ بھی کسی مولوی صاحب کی کوتاہی یا سفارش کا ہی نتیجہ تھے۔یا ملک بھر میں عدالتوں میں لٹکے ہزاروں کیسز کی وجہ بھی اُن کے زعم میں علماے کرام کی رجعت پسندی ہی ہے۔ انگریز کے دیے عدالتی نظام کی خرابیاں مسلمہ ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے بھی کئی مجرم گرفتار کررکھے اور سیکڑوں رہا کرچھوڑے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی عبرت ناک سزا سے دوچار نہیں کیا۔ اب یاسر پیرزادہ اپنے آقائے ولی نعمت کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے، سیکولر نظام انصاف کے بارے میں بھی ان کی زبان گنگ ہے، بے چارے اہل اسلام ہی ایسا نشانہ ہیں کہ جو چاہے اُنہیں شکار بنالے۔ جناب کالم نگار اور جنگ اخبار کی انتظامیہ کو چاہئے کہ کالم میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے حقائق کا سہارا لیں ، جھوٹ کی عمارت بظاہر جس قدر بھی دیدہ زیب ہو، آخر کارکچی ثابت ہوتی ہے۔
[1] روزنامہ 'اُردو پوائنٹ' کراچی:6/اپریل 2013ء