کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 8
خلاف واقعہ دعوؤں کی آمیزش بھی شامل ہو۔
جھوٹ اور مبالغہ آرائی
4. تنقید کرنے والوں کے دعوے خلافِ واقعہ ہیں۔جناب یاسر پیرزادہ نے اپنےکالم میں علماے کرام پر پھبتیاں کسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس توجہ کا معمولی حصہ وہ اصل سفارش کے متن کو تلاش کرنے میں صرف کردیتے تو اس طرح اپنے قارئین کے ساتھ وہ بہتر انصاف کرپاتے۔ ہم اوپر اس سفارش کا متن، اور اس پر ہونے والے مختلف تبصرے پڑھ آئے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہر مقام پر تو یہ سفارش زنا بالجبر کے گرد ہی گھومتی ہے اورجب یہ یاسر پیرزادہ کے پاس پہنچتی ہے تو زنا بالجبر کی بجائے ازخود ہی 'اجتماعی عصمت دری' کی خوفناک شکل اختیار کرجاتی ہے۔گینگ ریپ کی یہ اصطلاح اُنہوں نے کالم کے آغاز میں بھی استعمال کی اور کالم کا اختتام بھی اسی مخصوص جرم کے حوالے سےطنز پر ہوتا ہے۔ جناب کالم نگار پر اس جرم کا نزول کہاں سے ہوا اور اس کے بارے میں کس نے اور کب سفارش کی اور اُنہیں کہاں سے اس کا علم ہوا؟ زنابالجبر اور گینگ ریپ فعل ، ثبوت، سزا اور ہولناکی کے لحاظ سے دو مختلف جرم ہیں ۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا سمجھا جائے کہ پیرزادہ صاحب نے اپنی تردید اور تمسخر میں وزن ڈالنے کے لئے اپنے قاری کو مغالطہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
٭ بی بی سی لندن کے کالم نویس نے اپنی بات میں رنگ بھرنے کے لئے لودھراں کی ایک مظلوم خاتون سے بات کا آغاز کیا ، وہاں تو اس واقعہ کا تذکرہ بطورِ اشارہ تھا جو حقائق کے برخلاف تھا، لیکن ہمارے مذکورکالم نگار نے تو غلط بیانی کو وتیرہ بناتے ہوئے،اپنے قاری کو صریح مغالطہ دیا اور اس واقعے کو کونسل کی سفارش کا براہِ راست نتیجہ بنا دیا، لکھتے ہیں:
''اس فیصلے کے دور رس اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، پانچ سال قبل مزارِ قائد کےاحاطے میں جو معصوم لڑکی ریپ کاشکار ہوئی.... آخر میں دوبارہ لکھا:
اگر ان سفارشات پر عمل درآمد ہوجائے تو ملک میں 'اسلامی نظام' نافذ ہوجائے گا، اگر ایسا ہی ہے تو اس جماعت کو مبارک ہو کہ کراچی کی ایک عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔'' ( کالم مذکور)
جناب کالم نگار نے لودھراں کے واقعہ کو کونسل کی سفارش کا نتیجہ قرار دینے کا تاثر دیا ہے،