کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 7
عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں گینگ ریپ ہونے والی خواتین کی آواز دب جائے گی اور ملزم دندناتے پھریں گے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کا یہی انصاف ہے؟''[1]
تبصرہ وتجزیہ
قارئین کرام! اوپر درج شدہ خبروں اور کالموں سے جس طرح آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اسلام کے خلاف کوئی معاملہ کس طرح عالمی میڈیا اُٹھاتاہے، پاکستان میں کونسے حلقے اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور پھر کس طرح اس کو موقر روزناموں کے صفحات پر بعض کالم نگار پہنچا دیتے ہیں۔ اسی طرح مذکورہ بالا بیانات سے آپ کو لبرل دانشوروں کی شدت وانتہاپسندی ، طنز وتمسخرمیں بھجی ہوئی تحریروں کے رجحان کا بھی علم ہوا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی ، اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے اس میں کیاکیا جھوٹ اور کیسی مبالغہ آرائی کا مصالحہ شامل کیا گیا،اس کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیانات اور خوش نما جذبے، روح وعمل سے خالی ہیں، اگر اُن کے منطقی نتائج پر غور کیاجائے تو کوئی بھی فرد اس مرکزی نکتہ کے علاوہ کسی بات پر متفق نہیں کہ علماے کرام اور اسلامی اداروں کوبدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، چاہے یہ ادارے سرکاری سطح پر انتہائی معتبر اور آئینی ڈھانچے اور تشخص کے حامل ہوں، ان میں اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج حضرات بھی تشریف فرماہوں، لیکن اُن کی بلا سے۔
1. انتہاپسندی؛ایک مذموم رویہ: سب سے پہلے تو واضح رہنا چاہئے کہ انتہاپسندی ایک رویہ ہے جو کسی بھی طبقہ میں پایا جائے ، وہ قابل اصلاح ہے۔ اسلام ایک دین اعتدال ہے، ملّتِ اسلامیہ اُمتِ وسط ہے۔ بہترین اُمور ، میانہ روی کے حامل اور درمیان والے ہیں۔ انتہاپسندی اسلام کی رو سے عبادات میں ہو تو وہ ناجائز ہے، معاملات میں ہو تو گوارا نہیں، جس پر کئی ایک فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ شاہد ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بزعم خود روشن خیال کہلانے والے ملحد اور لبرل طبقات اپنے خیالات پیش کرنے ، دوسروں کو لتاڑنے اور ان پر جملے کسنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ انتہا پسندی کسی بھی مقام پر ہو، قابل اصلاح اور قابل استرداد ہے۔ بالخصوص ایسے مقام پر جہاں طنزو تمسخر کے ساتھ ساتھ اس میں جھوٹ اور
[1] روزنامہ جنگ لاہور،3جون 2013ء