کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 64
نیز اوّل تو یہ الفاظ نہ مرفوعاً ثابت ہیں اور نہ موقوفاً، یعنی یہ نہ حدیثِ رسول ہے اور نہ کسی صحابی کا قول[1] ... یہ الفاظ جامع ترمذی، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں منقول ہیں۔ ان سب کی سندیں ضعیف ہیں تاہم اسے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول قرار دیا گیا ہے۔ (اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) البتہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، مثلاً: المعجم الکبیر للطبرانی[2] میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: إذا قال الرجل لامرَأته: أمركِ بیدكِ أو استفلحي بأمرك أووهبها لأهلها فقبلوها فهي واحدة بائنة[3] ''اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے ، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔'' اس اثر میں غور کریں، کیا اس کا تعلق زیر بحث تفویض طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاقِ کنائی) یاتوکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہو جائے گی اور بقول عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ یہ ایک طلاق بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے کیونکہ یہ طلاق کون سی ہو گی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں، تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے،
[1] ضعیف سنن ابو داود، للالبانی: 478 [2] المعجم الکبیر للطبرانی:9/ 379، حدیث: 9627 [3] ماہنامہ 'الحدیث'حضرو، مئی 2013ء