کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 6
لیے عدالتیں یا اُن پر تنقید کے لیے میڈیا موجود ہے۔ ماضی کے ان عفریتوں سے پیچھا چھڑانے کی ضرورت ہے۔ ''
ایسے ہی شدید ردّعمل کا اظہار جرمنی کے خبررساں ادارے 'بغاوت' نے اپنی 31 مئی کی اشاعت میں کیا۔ پاکستان میں عاصمہ جہانگیر کے 'انسانی حقوق کمیشن 'نے بھی31 مئی 2013ء کو ہی اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پریس ریلیز میں یہ قرار دیا کہ
HRCP expressed alarm and disappointment... [1]
''کمیشن نے اس موقف کو خطرہ کی گھنٹی اور قابل تشویش قرار دیا کہ ڈی این اے، زنا بالجبر کے واقعات میں بنیادی شہادت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسی سفارشات سے پتہ چلتاہے کہ اسلامی کونسل کس طرح رجعت پسندانہ اور عصر جدید کے تقاضوں سے متصادم رجحانات کی حامل ہے، نئی حکومت کو فوری طورپر ایسی کونسل کو تحلیل کرکے تجدد پسند افراد پر مشتمل کونسل کی تشکیل کرنا ہوگی۔''
بات تبصرہ وتنقید اور طنزیہ لب ولہجے تک رہتی تو گوارا تھا، اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے لبرل انتہاپسندوں کو جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑے، تو وہ اِس سے بھی گریز نہیں کرتے، کسی طرح اسلام اور اہل اسلام کی مذمت کا مقصد پورا ہونا چاہئے۔ آئیے دیکھیں جنگ کے کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے فرزنداور دینی خانوادے کے چشم وچراغ ، وفاقی بیورو کریٹ یاسر پیرزادہ کے خیالاتِ عالیہ... موصوف جب بولتے ہیں، چھپر پھاڑ کے بولتے ہیں اور اپنے مدعا کے لئے جو اینٹ روڑا ہاتھ آئے، اس کا استعمال ضروری خیال کرتے ہیں، اُنہوں نے اس پر مستقل کالم لکھ مارا ۔ روزنامہ جنگ میں 'اسلامی نظریاتی کونسل کا اسلامی نظام'کے زیر عنوان وہ رقم طراز ہیں:
''اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں یہ 'فتوٰی' صادر کیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ خبر ریپ ملزمان کے لئے تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا ایسے تمام ملزمان کو چاہئے کہ وہ کونسل کے چیئرمین کو شکریے کی اِی میل ارسال کریں اور جیل سے چھوٹنے کے فوراً بعد اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔...
اس فیصلے کے دور رَس اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں... کراچی کی ایک
[1] روزنامہ ڈان، 3/جون 2013ء