کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 57
ہے، اس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، راقم کی کتاب'خواتین کے امتیازی مسائل' میں اس کے دلائل تفصیل سے مذکور ہیں۔ عورت کے اس حق خلع کی موجودگی میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ نکاح کے موقعے پر مرد اپنا حق طلاق عورت کو تفویض کرے، کیونکہ اسلام نے عورت کے لیے بھی قانونِ خلع کی صورت میں مرد سے علیحدگی کا طریقہ بتلا دیا ہے اور عہدِ رسالت میں بعض عورتوں نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیتِ حاکم وقت خلع کا فیصلہ ناپسندیدہ خاوند سے علیحدگی کی صورت میں فرمایا ہے جس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے۔ علماے احناف کا فقہی جمود، خُلع کا انکار لیکن بدقسمتی سے قرآن و حدیث کے مقابلے میں آرا کو زیادہ اہمیت دینے والے علماو فقہا، اسلام کے اس قانونِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے فقہ حنفی میں مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں عورت کے لیے مرد سے گلوخلاصی حاصل کرنے کا جواز نہیں ہے، اس کا اعتراف مولانا تقی عثمانی صاحب (دیوبندی) نے بھی کیا ہے ۔[1] مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة نامی کتاب اسی لیے تحریر فرمائی تھی کہ عورتوں کی مشکلات کا کوئی حل، جوکہ فقہ حنفی میں نہیں ہے، تلاش کیا جائے، چنانچہ اُنھوں نے کچھ فقہی جمود توڑتے ہوئے دوسری فقہوں کے بعض مسائل کو اختیار کرکے بعض حل پیش فرمائے اور دیگر علماے احناف کی تصدیقات بھی حاصل کیں۔اس کے باوجود علماے احناف کا جمود برقرار ہے کہ جب تک خاوند کی رضا مندی حاصل نہ ہو، عورت کے لیے علیحدگی کی کوئی صورت نہیں۔[2] حالانکہ عورت کو حق خلع دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ خاوند راضی ہو یا راضی نہ ہو، عورت عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے اور عدالت کا فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا۔
[1] ملاحظہ ہو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة کے نئے ایڈیشن (ناشر:ادارہ اسلامیات) کا پیش لفظ، از مولانا تقی عثمانی [2] درسِ ترمذی از مولانا تقی عثمانی: 3/ 497