کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 48
قیامت سے پہلے اس کام کا واقع ہونا ناگزیر ہے اور اس کے واقع ہونے سے پہلے قیامت قائم نہیں ہوسکتی، البتہ اپنے اپنے اس مقررہ وقت پر وہ تمام چیزیں ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوتیں رہیں گی جو وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئےطے ہے اور اس کی وضاحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللّٰه )) [1]
''قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ (مسلمانوں کی) دو عظیم جماعتوں کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ بھی ایک ہی ہوگا اور یہاں تک کہ تیس دجال وکذاب ہوں گے ان میں سے ہرایک یہی گمان کرے گا کہ وہ اللہ کارسول ہے ۔''
اس حدیث میں جنگِ صفین کے بارے میں خبر دی گئی ہے اور یہ جنگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین واقع بھی ہو چکی ہے تو کیا اُمّتِ مسلمہ میں شرک کو صرف قرب ِقیامت کےساتھ خاص قررا دینے والے یہ حضرات صدر اوّل میں جنگِ صفین کے واقع ہونے کا انکار کر کے اس حدیث کو بھی قربِ قیامت کے آخری لمحات کے ساتھ ہی خاص کر ڈالیں گے؟ اور کیا مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور مرزا قادیانی جیسے کذابوں، دجالوں کا وجود وظہور اور اُن کے فتنوں کا پھیل جانا بھی ان حضرات کے نزدیک ابھی تک نہیں ہوا ہو گا؟ کیونکہ منصب نبوت و رسالت کے جھوٹے دعوؤں اور عوام کے ان سے متاثر ہو کر ان فتنوں میں مبتلا ہونے کے لیے جو جہالت درکار ہے، شاید یہ بھی ان حضرات کے نزدیک ابھی تک ممکن نہ ہوئی ہو؟ قارئین کرام جب باقی چیزوں کا انکار نہیں اور نہ ہی اُنہیں قرب قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا دجاتا ہے تو پھر اس امت میں شرک کے پائے جانے کا
[1] صحیح بخاری:7121،3609