کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 42
اسلام میں داخل ہوگئے اور شیطان نے جزیرہ عرب کوشرک سے پاک اور (اس میں) توحید کے ستونوں کو مضبوط دیکھا تو (ان احوال کے پیش نظر اس نے) یہ گمان کیا کہ اس کے بعد جزیرہ عرب میں شرک نہیں ہوگا اور اللہ کے سوا اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا تو اس حدیث میں شیطان کے دل میں واقع ہونے والی اس مایوسی کی خبر دی گئی ہے لیکن یہ حقیقت میں شرک کی نفی پر دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی وہ غیب جانتا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو وحی کے مطابق بولتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ عنقریب شرک واقع ہوجائے گا۔'' جزیرہ عرب میں شرک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ وَذُو الْخَلَصَةِ طَاغِيَةُ دَوْسٍ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَها فِي الْجَاهِلِيَّةِ)) [1] '' قیامت قائم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ دوس قبیلے کی عورتوں کے سرین ذوالخلصۃ پر حرکت کریں گے، ذوالخلصۃ دوس قبیلے کا طاغوت (بت) تھا جس کی وہ زمانۂجاہلیت میں عبادت کرتے تھے۔'' سرین ہلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بت کا طواف اور اس کی بندگی کریں گی۔ ذوالخلصۃ کا تعین اور محل وقوع: زمانہ جاہلیت میں ذوالخلصۃ نام سے دو بت معروف اور پوجے جاتے تھے۔ ایک تو یمن میں قبیلہ خثعم وغیرہ کا معبود تھا جسے کعب یمانیہ اور کعب شامیہ بھی کہا جاتا تھا اور اسے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے توڑ کر جلا ڈالا تھا۔[2] دوسرا دوس وغیرہ کا بت تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مندرجہ بالا حدیث میں یہی مراد ہے، دوس ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا اور یہ دوس بن عدثان بن عبداللہ بن زہران کی طرف منسوب تھے اور
[1] صحیح بخاری:7116؛ صحیح مسلم:2906؛ مسنداحمد:2/271 [2] صحیح بخاری، المغازی، باب غزوۃ ذي الخلصۃ:2/624