کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 40
"قد یئس الشیطان أن یعبد بأرضکم ولکن رضی أن یُطاع فیما سوٰى ذلك مما تحاقرون من أعمالکم"[1] ''شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمہاری اس سرزمین میں ا س کی عبادت کی جائے، تاہم اسے خوشی ہے کہ تم اپنی دانست میں چھوٹے اعمال میں اس کے پیروی کروگے۔'' (ج) شہر مکہ عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول في حجة الوداع ''میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کےموقع پر فرما رہے تھے( پھر اس موقع پر دیا جانے والا خطبہ بیان فرماتے ہیں جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) ((ألا إنّ الشیطان قد أیس أن یعبد في بلدکم هذا أبدا)) [2] اور ملا علی قاری حنفی راقم ہیں: ((في بلدکم هذا)) أی مکة ((أبدًا)) أي علانیة[3] قارئین کرام! جزیرہ عرب میں کفرکا زور ٹوٹ چکا تھا، اللہ کا قانون عملاً نافذ اور توحید کا غلبہ تھا، آستانے اُجڑ گئے، شرک کے اڈّے برباد ہوگئے اور ان کے نشانات کو خاک میں ملا دیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت مکہ میں حجۃ الوداع کےموقع پر توحید سے لبریز اور ایمان میں مضبوط صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عظیم الشان اجتماع اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھا اور دوسری طرف ابلیس لعین کی ناکامی اور بے بسی تھی اور ان پاکباز ہستیوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسا کر زمانہ جاہلیت کی طرح اس علاقے میں پھر سے کفر و شرک کا غلبہ و تسلط قائم كرنے اور اُمت محمدیہ کو مجموعی طور پر شرک میں مبتلا کردینے كى ابلیس لعین کو کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی اور اس کی سوچ پر مایوسی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کی اس
[1] مستدرک حاکم ، رقم 321 ،دوسرا نسخہ 1/93 [2] سنن ابن ماجہ:3055؛ سنن کبریٰ از امام نسائی :11213؛ سنن ترمذی:2159 [3] مرقاۃ:5/574، دوسرا نسخہ:5/373