کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 4
نصابِِ تعلیم میں اسلامی، ملّی، دینی اور نظریۂ پاکستان کی عکاسی کرنے والے مضامین کو سکولوں کے نصاب سے خارج کرنے کو افسوسناک اور قابل تشویش قرار دیا گیا۔... مزید برآں اجلاس مذکور میں رؤیتِ ہلال کے نظام کو جدید بنانے، خیبر پی کے میں رؤیتِ ہلال کے حوالے سے اتحاد ویگانگت کو فروغ دینے اور مسلمانانِ پاکستان کو انتشار وافتراق سے بچانے کے لئے مجلس مذاکرہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح زکوٰۃ فنڈ کو بنکوں میں رکھنے، مصیبت زدہ اور زیر حراست خواتین کے لئے فنڈ کے قیام کے ایکٹ وغیرہ پر متعدد سفارشات منظور کیں۔ مزید برآں زنابالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطورِ شہادت قبول کرنے ، توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم اوردیگر اُمور پر غور کرنے کے بعد سفارشات منظور کیں۔'' ڈی این اے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کی معنویت اور قانونی نوعیت کو سمجھے بغیر، نیز دیگر اہم سفارشات کی تائید کرنے کی بجائے، اسلام بیزار طبقہ نے شور مچانا شروع کردیا، اور سب سے پہلے بی بی سی لندن نے اس پر کڑے اور مضحکہ خیز الفاظ میں تنقید کی۔ 'شرعی ڈین اے' کے نام سے لکھے جانے والی رپورٹ میں محمد حنیف لکھتے ہیں کہ ''کونسل میں شامل تمام اراکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اِس ملک کے معروضی حالات سے واقف ہیں، اُمید ہے فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ہائی سکول کی سائنس بھی پڑھی ہو گی۔یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آپ شاختی کارڈ جعلی بنوا سکتے ہیں، کسی اور کے پاسپورٹ پر اپنی تصویر لگا سکتے ہیں، پلاسٹک سرجری سے چہرہ بھی تھوڑا بہت بدل سکتے ہیں، لیکن ابھی تک دریافت ہونے والے انسانی جینیاتی شناخت میں ڈی اے این ہی وہ کوڈ ہے جو کسی دو اِنسانوں میں مشترک نہیں ہوتا۔لیکن اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی کیا کریں وُہ مذہبی بھی ہیں اور نظریاتی بھی اور ہر ایسی سائنسی ایجاد جو اُن کے رُتبے کو چیلنج کرے، اُن کے لیے قابل قبول نہیں ہے... ڈی این اے ٹیسٹ جس کے ذریعے 'ریپ' جیسے قبیح جرم کا شکار ہونے والی ایک بچی کو انصاف مل سکتا ہے، ہمارے ملک کے چنیدہ علما اس پر متفق ہیں کہ نہیں ہونے دیں گے۔''[1] خبر کا انداز اور لہجہ، رپورٹ اورحقیقت سے بڑھ کر طنز وتمسخر کی بھونڈی مثال ہے، بی بی سی
[1] بی بی سی اردو ویب سائٹ:30 مئی 2013ء