کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 37
''اور اللہ کی قسم بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم [سب] مشرک ہوجاؤگے۔''[1] اور ان سب نے یہ گواہی بھی دی ہے کہ اس اُمت کےلوگوں میں بھی شرک واقع ہوچکا ہے۔اور اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَايَقْبَلُ اللّٰه مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ)) [2] ''اللہ تعالیٰ مشرک سے جو اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرے، کوئی عمل قبول نہیں فرماتے، یہاں تک کہ وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ نہ مل جائے۔'' یہ حدیث بھی مسلمان لوگوں کے شرک میں مبتلا ہوجانے کے بارے میں نص صریح ہے اور ''اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرے'' اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ''یہاں تک کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں کےساتھ مل جانے'' سے مراد یہ ہے کہ شرکیہ عقائد و اعمال اور طور طریقے چھوڑ کر اسلامی عقائد و اعمال کو اپنا لے، اور ''اسلام لانے کے بعد شرک کرنے والے کے کسی عمل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے'' اس بارے میں واضح ہے کہ یہاں شرکِ اکبر اور اس کے مرتکب لوگوں کی با ت ہورہی ہے کیونکہ شرکِ اکبر پر موت کی صورت میں انسان کے باقی تمام اعمال بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔[3] جبکہ شرکِ اصغر کی صورت میں وہی عمل ضائع ہوگا جس میں اس کی آمیزش ہوگی نہ کہ باقی بھی تمام اعمال۔ اور مسلمان لوگوں کے شرک میں مبتلا ہونے کے بارے میں درج ذیل آیتِ کریمہ بھی نص صریح ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ 106﴾[4]
[1] نعمۃ الباری:3/510،طبع اوّل [2] سنن ابن ماجہ:2536 [3] الانعام:88، الزمر:65 [4] سورة یوسف :106