کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 34
تیسرا مغالطہ اُمت مسلمہ میں شرک کے پائے جانے کا انکار کرنے والوں کی جانب سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو... جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ((وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَتنَافَسُوا فِيهَا)) [1] ''اور اللہ کی قسم! بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے تم پر یہ خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔''[2] پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ اُمّت مسلمہ کے لوگوں میں شرک نہیں پایا جاسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی خوف ہے لیکن یہ حدیث ان حضرات کے مفاد پر ہرگز دلالت نہیں کرتی کیونکہ دوسرےدلائل [3]اور اُمّت کےحالات کو سامنے رکھیں تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُمّت مسلمہ مجموعی طو رپر مشرک نہیں ہوگی، البتہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو شرک کے مرتکب ہوں گے۔ فقہا وعلما کا موقف (الف) علامہ عینی حنفی اس حدیث کے بارے میں راقم ہیں: قوله ((ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدي)) معناه علىٰ مجموعکم لأن ذلك قد وقع من البعض والعیاذ باللّٰه تعالىٰ[4] (ب) ملاعلی القاری حنفی راقم ہیں : ((وإني لست أخشى علیکم)) أی علىٰ مجموعکم «أن تشرکوا بعد))
[1] صحیح بخاری:1344؛ صحیح مسلم:2296؛ مسنداحمد:4/149 [2] ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، نعمۃ الباری:3/510، طبع اوّل [3] ان دلائل کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ماہ نامہ محدث اکتوبر2010ء اور انٹرنیٹ پر محدث فورم میں'اُمّتِ مسلمہ میں شرک کا وجود' [4] عمدۃ القاری:6/216، دارالفکر بیروت