کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 33
ہے کہ بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرا نبی مبعوث ہوتا تھا۔ اب اگر مسلمانوں میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے تو پھرنبوت کا دروازہ بندنہ کیا جاتا اورخصوصًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہمارے اس دور میں ہونی چاہیے تھی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو اُمّت میں شرک بھی نہیں پایا جاسکتا ۔
محترم قارئین! شرک کے لئے بہانے تلاش کرنے والے حضرات کی اس نرالی منطق پر آپ تعجب کیے بغیر نہ رہ سکیں گے کیونکہ شرک کی طرح ارتداد، قتل ناحق، زنا، چوری وغیرہ دیگر جرائم سے منع کرنا اور لوگوں کی اصلاح بھی انبیاے کرام علیہم السلام کے فرائض بعثت میں شامل ہوتا تھا۔ قوم کو خاص طور پر ناپ تول میں کمی و بیشی سے منع کرنا حضرت شعیب علیہ السلام [1] کی اور اسی طرح قوم کو لواطت سے منع کرنا حضرت لوط علیہ السلام [2] کی بعثت کے اہم مقاصد میں شامل تھا تو کیا ان مفکرین مغالطہ بازی کی جانب سے اُمتِ محمدیہ میں شرک کی طرح اُمّت کے لوگوں میں پائے جانے والے دیگر جرائم کے وجود سےبھی انکار کردیا جائے گا یا پھر ان کی اصلاح کے لئے کسی دوسرے نبی کی آمد کاانتظار کیا جائے؟ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا اور شرک سمیت دیگر جرائم بھی اس اُمّت کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں اور کوئی بھی صاحبِ علم و بصیرت اس کا انکار نہیں کرسکتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں محفوظ و موجود ہے اور اس کی راہنمائی میں دین کی تبلیغ و اشاعت، کافروں کو دعوتِ اسلام اور شرک سمیت تمام خرافات اور بُرائیوں سے اُمّت کی تطہیر و اصلاح کی ذمہ داری انبیا کے حقیقی وارث علماے ربانی کے کندھوں پر ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ ''اب دوسرا نبی نہیں تو اس اُمّت میں شرک بھی نہیں پایا جاسکتا...''علم و دانش سےبھی خالی اور سراسر دھوکہ ہے اور لوگوں کے حالات و عقائد بھی اس کی نفی کرتے ہیں۔
[1] سورۃ الشعراء :161 تا 175
[2] سورۃ الشعراء : 176 تا 190