کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 32
واتخاذها مساجدا وبناؤها علیه[1]
''اس پر اجماع ہے کہ سب سے بُری، حرام اور شرک کے اسباب میں سے مزارات کےپاس نماز پڑھنا اور ان پر مسجدیں اور عمارتیں بنانا ہے۔''
چنانچہ احمد رضا خان صاحب بریلوی 'طواف' کے متعلق راقم ہیں:
'' وہ بھی مثل نماز عبادت ہے۔''[2]
آستانوں اور درگاہوں پر ہونے والے عرس و میلہ جات جس طرح حج کی مانند موسم اور عید کا منظر پیش کرتے ہیں اور پھر وہاں پر ہونے والے شرکیہ افعال و عبادات بنی اسرائیل کی طرح اس اُمّت کے لوگوں میں بھی خرافات و شرکیات در آنے پر روزِ روشن کی طرح واضح ثبوت ہیں۔چنانچہ سلطان باہو کے مزار پر طواف بلکہ گنتی کرکے سات چکر پورے کیے جاتے ہیں اور پھر مزار پر نذر پوری کرنے، نیاز دینے، منت مانگنے اور دعا کرنے کے بعد ساتھ ہی احاطہ میں موجود بیری کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بےاولاد اور اولادِ نرینہ سے محروم حضرات اپنے دامن پھیلائے گھنٹوں اس اُمید پر بیٹھے رہتے ہیں کہ جس کے دامن میں بیر کا پھل گرے گا ، بابا جی اسے بیٹے سے نوازیں گے اور اگر پتہ گرے گا تو بیٹی ملے گی، عرس کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے یہی صورتِ حال ہوتی ہے اور راقم اس کا عینی شاہد ہے۔
اور شہباز قلندر کے مزار پر تو باقاعدہ حج کیا جاتا اور اسی نیت سے اس کی طرف سفر بھی کیا جاتا ہے اور 'حج فقیر بر آستانہ پیر' کے نام سے تو کتابیں بھی موجود ہیں اور لاہور میں گھوڑے شاہ کے مزار پر تو گھوڑوں کے بت رکھے ہوئے ہیں جن کی پوجا پاٹ ہوتی ہے ،بالخصوص عورتیں پیش پیش نظر آتی ہیں اور پاکپتن میں تو بہشتی دروازہ گزر کر لوگ جنت میں بھی چلے جاتے ہیں۔
دوسرا مغالطہ
اور پھر اُمّت مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کو ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل بھی دی جاتی
[1] روح المعانی:15/238
[2] ملفوظات : ص77