کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 31
ا ور یہ ناحق غلو ہی تو تھا کہ انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اُن پر عمارتیں بنائیں، عبادت خانے تعمیر کئے۔یہ لوگ وہاں دعائیں کرتے، منتیں مانتے، نذرونیاز پیش کرتے، چڑھاوے چڑھاتے اور حج کی طرح عرس و میلے لگاتے ، ان بزرگوں اور ہستیوں کو فوق الفطرت اختیارات و صفات کا مالک سمجھتے تھے ۔اور عرب کے لوگ بھی زمانہ جاہلیت میں ایسے ہی کیا کرتے تھے اور پھر ذاتی نہیں بلکہ عطائی اختیارات و صفات ہی سمجھتے تھے اور بعض نے تو خدا ہی کہہ ڈالا، اور یہی چیزیں پہلی قوموں کی اتباع میں آج بھی لوگو ں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
7. اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ)) [1]
اس حدیث کا ترجمہ شیخ عبدالحق حنفی دہلوی یوں کرتے ہیں:
''اپنے گھروں کو قبروں کی مانند نہ بناؤ اور میری قبر پر عید اور خوشی نہ کرو البتہ مجھ پر درود بھیجو اس لئے کہ تمہارا درود میرے پاس پہنچتا ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔''[2]
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
هٰذا إشارة اليٰ سدّ مدخل التحریف کما فعل الیهود والنصاری بقبور أنبیائهم و جعلوها عیدًا و موسمًا بمنزلة الحج[3]
''اس حدیث میں تحریف کے اس دروازے کو بند کرنے کی (کوشش) کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنےنبیوں کی قبروں کے ساتھ سلوک کیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے انہیں حج کی طرح موسم اور عید بنا ڈالا تھا۔''
علامہ آلوسی حنفی لکھتے ہیں:
ثم إجماعًا فإن أعظم المحرمات وأسباب الشرك الصلوٰة عندها
[1] سنن ابوداؤد:2042؛ مسنداحمد:2/367
[2] مشکوٰۃ مترجم:1/240، طبع محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی
[3] حجۃ اللہ البالغۃ:2/77