کتاب: محدث شمارہ 361 - صفحہ 30
کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے بارے میں فکر مند بھی تھے کہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی میں ان طریقوں کو نہ اپنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب اور کفار کی مخالفت کو پسند کرتے تھے اور آپ کو اپنی اُمت پر ان کی اتباع کاخوف بھی تھا۔کیا تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو نہیں دیکھتے جو عار دلانے اور ملامت کرنے کے انداز میں ہے:''تم ضرور پہلے لوگوں کےطریقوں پر چلو گے جیسا کہ جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے حتیٰ کے ان میں سے کوئی سانڈے کے بِل میں داخل ہوا تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔''[1]
غلوّ: اورپہلی اُمتوں کی پیروی میں شرک و خرافات میں مبتلا کردینے والی اس ناحق غلو آمیز تعظیم میں اُمت کے مبتلا ہوجانے کے خوف کی وجہ سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
6. ((لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللّٰه وَرَسُولُهُ)) [2]
''مجھے حد سے مت بڑھانا جیسا کہ عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں بس تم یہی کہا کرو کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''
اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لا تَغلوا فى دينِكُم غَيرَ الحَقِّ وَلا تَتَّبِعوا أَهواءَ قَومٍ قَد ضَلّوا مِن قَبلُ وَأَضَلّوا كَثيرًا وَضَلّوا عَن سَواءِ السَّبيلِ 77 ﴾[3]
''اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیں کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو مت کرو اور ایسی قوم کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوچکی ہے۔ اُنہوں نے بہت زیادہ لوگوں کو گمراہ کیا اور وہ خود بھی راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔''
[1] التمہید:2/327، دوسرا نسخہ :5/45
[2] صحيح بخاری:3445
[3] سورة المائدۃ: 77